رسولِ اکرمؐ سے قرآن کا خطاب
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
ایک اور مقام پر قرآنِ مجید رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوکر (لیکن خدا سے رسولِ اکرمؐ کے تقاضے کی صورت میں نہیں بلکہ خدا کی جانب سے بیان کی صورت میں) ایک انجام شدہ کام کا ذکر کرتا ہے۔ سورۂ مبارکہ الم نشرح میں ارشاد ہوتا ہے:
اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ۔
کیا ہم نے آپ کو شرحِ صدر عطا نہیں کیا؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام شرحِ صدر کا تقاضا کرتے ہیں، لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے خود قرآنِ مجید ایک انجام شدہ کام کی صورت میں فرماتا ہے: کیا ہم نے آپ کو شرحِ صدر عطا نہیں کیا؟ وسیع ظرف نہیں دیا؟ یعنی وسیع ظرف کاپایا جانا اس کام کی ایک شرط ہے، اور ہم نے یہ شرط آپ کو فراہم کی ہے ۔
وَ وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ۔
اوراس بھاری بوجھ کوآپ کے کاندھے سے اتار نہیں دیا؟
وہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں: وَ یَسِّرْ لِیْٓ اَمْرِیْ۔اس بھاری بوجھ کو میرے لئے آسان اورہلکاکردے۔ یہاں قرآنِ مجید پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ہم نے یہ بھاری بوجھ آپ کے کاندھے سے اتار دیاہے۔
الَّذِیْٓ اَنْقَضَ ظَہْرَک۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ بھاری بوجھ جو اس قدر بھاری تھا کہ آپ کی کمر توڑے ڈال رہا تھا۔ خاتم الانبیاؐ سے خطاب ہے، بوجھ بھی دعوت و تبلیغ اور لوگوں کا سامنا کرنے کے سوا کوئی اور نہیں ہے، وہ لوگ جن کی ہدایت و رہنمائی مقصود ہے، بلکہ جنہیں پروردگار کی جانب کھینچ کر لے جانا ہے۔ یہ کام اس قدر مشکل ہے کہ} اس کے بارے میں{قرآن کی تعبیر یہ ہے کہ:آپ کی کمر توڑے ڈال رہا تھا۔ اَنْقَضَ کے بظاہر یہی معنی ہیں۔ اگر ایک چھت ہو اور ایک بہت بھاری وزن، مثلاً بڑی تعداد میں انسان یا کوئی بہت وزنی چیز اس کے اوپر رکھی ہوئی ہو کہ اس چھت کی لکڑیاں آواز کرنے لگیں اور معروف اصطلاح میں چرچرانے لگیں، تو کہتے ہیں: اَنْقَضَ یا نَقَضَ۔ یا اسی قسم کے الفاظ بولے جاتے ہیں۔ جب کہنا چاہتا ہے کہ یہ بوجھ اتنا بھاری تھا کہ گویا آپ کی کمر کی ہڈیاں چٹخ رہی تھیں، تو کہتا ہے:
اَنْقَضَ ظَہْرَکَ۔ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ۔
ہم نے ہر جگہ آپ کا نام بلند کردیا ہے۔
ایک بار پھر کام کی سختی کا ذکر ہے:
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراً اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراً۔ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَ اِلیٰ رَبِّکَ فَارْغَبْ۔
اے پیغمبر! کام بہت دشوار ہے، لیکن اگرانسان دشواریوں کو برداشت کرلے، تو دشواری کے ساتھ آسانی ہے، یعنی آسانیاں دشواریوں کے بطن میں پوشیدہ ہیں، ہر دشواری کے اندرآسانی موجود ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ صبر کرو، استقامت سے کام لو۔ فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراً۔ ایک بار پھر تاکید کرتا ہے: اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراً۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ا س آیت سے یوں محسوس کیا کہ ہر دشواری کے ساتھ دوآسانیاں ہوں گی، اس احساس سے آپ کا چہرۂ مبارک کِھل اُٹھا اورآپ خوشی سے بار بار دُہراتے تھے، اور فرماتے تھے کہ ایک دشواری دوآسانیوں کا کیا بگاڑ سکتی ہے؟ میرے خدا نے مجھے ان دشواریوں کے ساتھ آسانی اور نرمی کا وعدہ دیا ہے۔
فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَ اِلیٰ رَبِّکَ فَارْغَبْ۔
اگرآپ ان آیات کا حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی آیات کے ساتھ موازنہ کریں، اورپھر شیعوں اور سنیوں کے درمیان اس متواتر جملے کو مدنظر رکھیں جسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایاہے کہ:
اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارونَ مِنْ موسیٰ۔ (۱)
آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔
یعنی جس طرح سے ہارون اس کام میں موسیٰ کے شریک اور معاون تھے، اسی طرح سے آپ بھی امت کے دو میں سے ایک باپ ہیں۔
اس صورت میں آپ دیکھیں گے کہ یہ جو شیعہ تفسیروں میں آیا ہے اور بظاہر روایات نے بھی جس کی تائید کی ہے کہ ”فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ“کا اشارہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کی جانب ہے، تو یہ بات بالکل دل کو لگتی ہے کہ ایسا ہی ہونا بھی چاہئے اس کے سوا کچھ اور نہیں۔ لیکن فی الحال ہماری بحث ایک دوسرے نکتے کے بارے میں ہے۔
بھاری بات
قرآنِ مجید کی ایک اورآیت جو دعوتِ حق اورپیغامِ ربّانی پہنچانے کے معاملے کی غیر معمولی اہمیت اورشدید دشواری کاذکرکرتی ہے، وہ سورۂ مزمل کی ایک آیت ہے، اورآپ جانتے ہیں کہ سورۂ مزمل اور سورۂ مدثر بعثت کی ابتدا میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلاً ثَقِیْلاً۔
ہم عنقریب آپ پر ایک بھاری بات نازل کرنے والے ہیں۔
بات کے بھاری ہونے سے کیا مراد ہے؟ کوئی بات، بات ہونے کے اعتبار سے ہلکی اور بھاری نہیں ہوا کرتی۔ ممکن ہے بات کا مضمون یا جو بات بیان کی گئی ہے اس کو نافذ کرنا سخت اور دشوار ہو، اور ممکن ہے آسان ہو۔ خودہم بعض اوقات کہتے ہیں کہ: فلاں شخص نے فلاں شخص کو سخت بات کہی ہے، یعنی ایک ایسی بات کہی ہے جس کے معنی برداشت کرنا اس کے لئے مشکل ہے ۔ یا ہم کہتے ہیں کہ: ہمیں بہت مشکل کام سونپا گیا ہے۔ ایسا شخص جو کسی افسر کی جانب سے مامور ہوتا ہے، وہ کہتا ہے کہ ہمیں بھاری ذمے داری دی گئی ہے۔ ایک حکم صادر کیا گیا ہے، اس سے کہا گیا ہے کہ جاؤ فلاں کام انجام دو۔ کہتا ہے کہ ہمیں بھاری ذمے داری دی گئی ہے۔ ذمے داری کے بھاری ہونے سے کیا مرادہے؟ ذمے داری، وہ حکم، وہ کاغذ، وہ بات اور وہ خط وغیرہ تو نہ ہلکا ہوتاہے اور نہ بھاری۔ اس بارے میں بحث نہیں ہے ۔ جب اس ذمے داری کا مضمون اور موادایک غیر معمولی طور پر دشوار کام ہو، تو کہتے ہیں کہ بھاری ذمے داری۔ قرآنِ مجید کا ارشاد ہے: اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلاً ثَقِیْلاً۔ ہم عنقریب آپ پر ایک بھاری بات نازل کرنے والے ہیں، اور یہ لوگوں کو دعوت دینے اور ان کی ہدایت کرنے کے سواکوئی اور چیز نہیں ہے۔
ممکن ہے کچھ لوگ یہ سوال کریں کہ قرآنِ مجید دعوت اور تبلیغ کے کام کو اس قدر دشوارکام کیوں قرار دیتا ہے؟
۱۔اس حدیث کا بقیہ حصہ یہ ہے: اِلَّا اَنَّہُ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔ (سوا اسکے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ سفینۃ البحار۔ ج۲۔ ص۵۸۳اور ۵۸۴)