روح کی لطافت
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
انسان کی روح غیر معمولی طور پر لطیف ہے، اوربہت جلد ردِعمل کا اظہار کرتی ہے۔ اگر انسان کسی عمل کے ذریعے اپنی روح پر دباؤ ڈالے ( دوسروں کی روح پر دباؤ کا تو کیا ذکر)تو انسان کی روح گریز اور فرار کی صورت میں اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتی ہے ۔ مثلاً عبادت کے سلسلے میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو تاکیدیں کی ہیں ان میں ہے کہ عبادت کو اتنی مقدار میں انجام دو کہ تمہاری روح میں عبادت کے لئے تازگی برقرار رہے، یعنی عبادت کو رغبت اور شوق کے ساتھ انجام دے سکو۔ جب کچھ دیر عبادت کرنے، نماز پڑھنے، مستحبات بجا لانے، نوافل ادا کرلینے، قرآنِ مجید کی تلاوت کرلینے اور بیداری کو برداشت کرلینے کے بعد تمہیں یہ محسوس ہونے لگے کہ اب عبادت سخت اور ناگوار گزر رہی ہے، یعنی تم اسے زبردستی برداشت کر رہے ہو، تو فرمایا: اب یہ کافی ہے، عبادت کو خود پر مسلط نہ کرو۔ جس قدر تم مسلط کرو گے، تمہاری روح رفتہ رفتہ عبادت سے گریزاں ہوگی، گویا تم عبادت کو اسے ایک }کڑوی {دوا کی طرح دے رہے ہو گے، اُس وقت عبادت کے بارے میں تمہارے دل میں ایک براخیال پیدا ہوگا۔ ہمیشہ کوشش کرو کہ عبادت میں بشاشت اور نشاط برقرار رہے اور تمہارا دل عبادت کے بارے میں اچھا تصور رکھے ۔} آنحضرتؐ نے {جابر سے فرمایا:
یاجابِرُ! اِنَّ ھٰذَا الدِّینَ لَمَتِیْنٌ فَاَوْغِلْ فِیْہِ بِرِفْقٍ فَاِنَّ الْمُنْبَتَّ لَا اَرْضاً قَطَعَ وَ لَاظَھْراً اَبْقیٰ ۔
اے جابر! دین اسلام دین متین ہے، اپنے ساتھ نرم رَویہ رکھو۔ پھر فرماتے ہیں (کیسی زبردست تشبیہ ہے!) جابر! جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی ذات پر دباؤ ڈال کر اور اپنے اوپر سختی کر کے جلداز جلد مقصد تک پہنچ جائیں گے، وہ غلطی پر ہیں، وہ کبھی مقصد تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جسے ایک سواری دی گئی ہے، تاکہ وہ ایک شہر سے دوسرے شہر جاسکے، اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس سواری کو جتنا زیادہ چابک رسید کرے گا اور اس پر جتنا زیادہ دباؤ ڈالے گا، وہ اتنا ہی جلد پہنچ جائے گا۔ایسا شخص ابتدائی چند منزلیں تو تیزی کے ساتھ سر کرلے گا، لیکن اچانک اسے معلوم ہوگا کہ اُس نے بے چاری سواری کو زخمی کردیا ہے، اور اب اسکے لئے راستہ چلنا دوبھر ہوچکاہے اور وہ جابجا رک رہی ہے، اور وہ منزل پر نہیں پہنچا، جبکہ اس نے اپنی سواری کو بھی ناقص اور زخمی کردیاہے۔ فرمایا: جو انسان اپنے آپ پر سختی کرتا ہے اور اپنی استعداد سے بڑھ کر اپنے اوپر بوجھ ڈالتا ہے، اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ جلد مقصد تک پہنچ جائے گا، وہ کبھی مقصد تک نہیں پہنچے گا۔ اس کی روح اُس سواری کی مانند ہوجائے گی جوزخمی ہوگئی ہو، وہ راستے میں ٹھہر جائے گی اور قدم اٹھانے کے قابل نہیں رہے گی۔ لوگوں کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے۔
ایک مسلمان اور اس کاعیسائی پڑوسی
امام جعفر صادق علیہ السلام ایک داستان نقل کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں: ایک شخص مسلمان اور عبادت گزارتھا، اس کا ایک عیسائی پڑوسی تھا، اس کا اسکے گھرآنا جانا تھا، یہاں تک کہ وہ عیسائی اسلام کی طرف مائل ہوا اور اس کے ہاتھ پر مسلمان ہوگیا۔ عیسائی کے مسلمان ہونے کے بعد اس آدمی نے سوچا کہ اسے زیادہ مسلمان کردے اوراسے بہت ثواب پہنچائے ۔وہ بے چارہ جو ابھی تازہ تازہ مسلمان ہوا تھا اور اگلا دن اس کے اسلام کا پہلا دن تھا، اس نے دیکھا کہ صبح طلوع ہونے سے پہلے ہی کوئی اس کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔}اس نے پوچا:{ کون ہے؟ }باہر سے آواز آئی:{ میں ہوں تمہارا مسلمان ہمسایہ۔ کیوں آئے ہو؟ میں اس لئے آیا ہوں کہ چلوساتھ چل کر مسجد میں عبادت کرتے ہیں۔ وہ بے چارہ اٹھا، وضو کیا اورمسجد چلا گیا۔ (نافلہ نمازیں پڑھنے کے بعد)اس نے پوچھا :ختم؟ وہ بولا: نہیں، فجر کی نماز بھی ہے۔ فجر کی نماز بھی پڑھ لی۔ اب ختم؟ نہیں، کچھ نوافل بھی پڑھ لیتے ہیں، مستحب ہے۔ ہمیں اتنی نوافل پڑھنی ہیں کہ طلوعین کے درمیان سورج طلوع ہونے تک بیدار رہ سکیں۔ سورج طلوع ہوگیا۔ کہنے لگا: سورج نکلنے کے بعد بھی کچھ دیر (عبادت کرلیتے ہیں)۔ ظہر کے وقت بھی اسے نماز کے لئے ٹھہرائے رکھا اور عصر تک بھی روکے رکھا اور پھر بولا: تم نے کھانا تو نہیں کھایا ہے، کیوں نہ روزے کی نیت بھی کرلو۔ مختصر یہ کہ اسے رات شروع ہونے کے بعدبھی دو تین گھنٹوں تک نہیں جانے دیا۔ جب اگلی صبح اس نے اسکے دروازے پر دستک دی، اُس نے پوچھا :کون ہے؟ اور اس نے بتایا کہ میں تمہارا مسلمان بھائی ہوں، اُس نے پوچھا: کیوں آئے ہو؟ اس نے کہامیں تمہیں عبادت کے لئے لینے آیا ہوں، تو اُس نے کہا: یہ دین بے کارلوگوں کے لئے ٹھیک ہے۔میں اسے چھوڑ کر اپنے پہلے دین کی طرف لوٹ گیا ہوں۔
یہ داستان بیان کرنے کے بعد امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ہمیں ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ اس شخص نے ایک انسان کو مسلمان کیا اور پھر اپنے ہی ہاتھوں اسے مرتد اور کافر بنا دیا۔
بہت سے کام ایسے ہیں جو تنفیر پیدا کرتے ہیں۔ یعنی لوگوں کو اسلام سے متنفر کر تے ہیں۔ مثلاً اسلام میں صفائی بے شک سنت اور مستحبِ موکد ہے۔ صفائی ایمان کا حصہ ہے اور ہمارے نبیؐ اپنے زمانے کے صاف ستھرے ترین انسان تھے۔ اگرآج پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتے تو ہم دیکھتے کہ آپ غیر معمولی صاف ستھرے انسان ہیں۔ ایک چیز جسے نبی اکرمؐ کبھی نہیں چھوڑتے تھے اور دوسروں کو بھی اسکی تاکید کیا کرتے تھے، وہ عطر اور خوشبو کا استعمال ہے۔ اسکے باوجود صفائی ایک سنت اور مستحب کام ہے، واجب نہیں ہے۔ اب اگر ایک مبلغ کا لباس گندااورمیلا کچیلا ہو اور اسکے بدن سے بدبو اٹھ رہی ہو، تو شایدفقہی اعتبار سے تو یہ نہ کہا جاسکے کہ وہ کسی حرام کامرتکب ہوا ہے، لیکن آپ ذرا یہ سوچئے کہ یہ شخص اس میلی کچیلی اوربدبواڑاتی حالت میں ایک انتہائی صاف ستھرے جوان کے پاس آکر یہ کہے کہ میں تمہیں اسلام کی طرف دعوت دینا اورتمہیں دین کی تبلیغ کرناچاہتا ہوں۔ اگر اسکی باتیں ہیرے جواہرات سی بھی ہوں، تب بھی وہ جوان اس کی باتیں نہیں مانے گا۔
علمِ کلام کے ماہرین ایک بہت اچھی بات کہتے ہیں۔اُن کاکہنا ہے کہ نبوت کی ایک شرط یہ ہے کہ پیغمبرؐ کے اندر کوئی ایسی صفت نہیں ہونی چاہئے جو لوگوں کو اُس سے متنفر کردے، خواہ وہ جسمانی نقص ہی کیوں نہ ہو۔ ہم جانتے ہیں جسمانی نقص سے انسانی روح کے کمال کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ فرض کیجئے کوئی انسان ایک آنکھ سے نابینا ہو، کسی کا چہرہ ٹیڑھا ہو اور وہ صرف ایک ہی رخ پر دیکھ سکتا ہو ۔ کیا یہ انسانی روح کے لئے کوئی نقص ہے؟ نہیں، ممکن ہے یہ انسان سلمان فارسیؓ کے مرتبے تک پہنچا ہوا ہو، بلکہ شایداُن سے بھی بلند مرتبہ ہو، لیکن کیا ایسا آدمی اپنی ایسی شکل وصورت کے ساتھ نبی ہوسکتا ہے؟ متکلمین کہتے ہیں کہ نہیں، کیونکہ اس کا چہرہ نفرت انگیز ہے۔ نقص نہیں ہے لیکن نفرت انگیز ہے۔ پیغمبر ؐمیں ایسی خصوصیات ہونی چاہئیں کہ اس کی ذات حتیٰ جسمانی اعتبار سے بھی پرکشش ہو اور کم از کم نفرت انگیز نہ ہو۔ حالانکہ جسمانی نقص، روحانی نقص نہیں ہوتا۔ پس جب ایک مبلغ اور خدا کی طرف بلانے والے کا حلیہ نفرت انگیز نہیں ہونا چاہئے، تو اسکی دوسری خصوصیات جیسے رفتار و کردار اور جو باتیں وہ کرتا ہے، انہیں بھی ایسی نہیں ہونا چاہئے جولوگوں میں نفرت، تنفر اور دوری پیداکریں۔
زیادہ ملامت
سختیاں، حدسے زیادہ ملامت اور برا بھلا کہنا بھی اسی قسم کی چیز ہے ۔سرزنش اور ڈانٹ ڈپٹ کبھی بہت مفید ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ملامت سے انسان کی غیرت جوش میں آجاتی ہے۔ لیکن ملامت کا بھی ایک مقام ہے۔ کبھی کبھی ملامت (ابونواس کے بقول) اشتعال کا سبب بھی بن جاتی ہے:
دَعْ عَنْکَ لَوْمِیْ فَاِنَّ اللَّوْمَ اِغْرآءٌ
وَ دَاوِنِیْ بِالَّتِیْ کَانَتْ ھِیَ الدَّآءُ(۱)
یہ ایک کلیہ نہیں ہے، لیکن بہت سے مواقع پر حد سے زیادہ ملامت اکثرنفرت پیدا کرتی ہے۔ مثلاً بہت سے لوگ اپنی اولاد کی تربیت میں اس غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں، بچوں کو مسلسل ڈانٹ ڈپٹ اورلعنت ملامت کرتے رہتے ہیں:}کبھی کہتے ہیں{ لعنت ہوتم پر، فلاں بچہ بھی تمہارا ہی ہم عمر ہے، دیکھو اس نے کس طرح ترقی کی ہے، تم انتہائی نالائق ہو، مجھے تو اب تم سے کوئی امید نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان ملامتوں سے بچے کی غیرت جوش میں آجائے گی۔ حالانکہ ایسے مواقع پر، ملامت اگرحد سے بڑھ جائے، تو برعکس ردِعمل کا باعث ہوتی ہے، اس کی روح میں اضطراب اور فرار کی حالت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ روحانی اعتبار سے بیمار ہوجاتا ہے اور محال ہے کہ پھر وہ اس کام کے لئے کوشش بھی کر ے }جو والدین اس سے کروانا چاہتے ہیں{ ۔
یہی وجہ ہے جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے احکامات میں نہ صرف معاذ بن جبل سے بلکہ معاذ بن جبل جیسا کام کرنے والے اور حضرات اورتمام ہی لوگوں سے فرمایاہے کہ: بَشِّرْ وَ لَاتُنَفِّرْ یَسِّرْ وَ لَاتُعَسِّرْ۔نرمی برتو، سختی سے کام نہ لو۔ لوگوں سے یہ نہ کہو کہ دینداری کوئی آسان کام نہیں، دینداری مشکل کام ہے، بہت مشکل ہے، غیر معمولی طور پر مشکل ہے، ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے، ہر شخص دیندار نہیں ہوسکتا۔ کارِ ہر بز نیست خرمن کوفتن۔۔گاو نر می خواہد و مردِ کہن (خوشوں سے گندم نکالنا ہر بکری کا کام نہیں ہے، اسکے لئے مضبوط بیل اور تجربہ کار مرد چاہئے) لوگوں کودینداری کے مشکل ہونے سے خوفزدہ نہ کرو، اس کے نتیجے میں وہ خوفزدہ ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ جب یہ اتنی مشکل ہے، تو اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ فرماتے تھے: یَسِّرْ۔آسان رکھو۔
اسلام درگزر کرنے والا اورآسان دین ہے
اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے:
بُعِثْتُ عَلَی الشَّرِیْعَۃِ السَّمْحَۃِ السَّھْلَۃِ۔
خدا نے مجھے ایسی شریعت اور دین پر مبعوث کیا ہے جس میں نرمی (درگزر) اورآسانی ہے۔
دین اسلام میں نرمی اور درگزر پائی جاتی ہے ۔ کسی انسان کو ”سماحۃ“کہتے ہیں، یعنی درگزر کرنے والا انسان، لیکن ”دین درگزر کرنے والاہے“ سے کیا مراد ہے؟ کیا دین بھی درگزرکرسکتا ہے؟ دین میں بھی درگزرہے، لیکن اسکے کچھ اصول ہیں۔ کیسے؟ وہ دین جوآپ سے کہتا ہے کہ وضو کیجئے، وہی دین آپ سے کہتا ہے کہ اگرآپ کے بدن پر کوئی زخم ہویا اس میں کوئی بیماری ہو اور آپ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، ضرر کا خوف ہو (یہ نہیں کہتا کہ نقصان کا یقین ہو) تو تیمم کرلیجئے، وضو نہ کیجئے۔ یہ ہیں دین میں سماحت(نرمی اور درگزر) کے معنی ۔یعنی دین میں ہٹ دھرمی اور ضدنہیں ہے، اپنے مقام پراس میں نرمی اور لچک بھی پائی جاتی ہے۔ یا دین کہتا ہے کہ روزہ واجب ہے۔ اگر انسان بغیر عذر کے روزہ نہ رکھے، تو گناہ کا مرتکب ہوتاہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہی دین اپنے مقام پر کس قدر لچک کا مظاہرہ کرتا ہے:
یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لااَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۔
خدا تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے زحمت اور مشقت نہیں۔ سورۂ بقرہ۲۔آیت ۱۸۵
روزے کے بارے میں ہے۔آپ مسافر ہیں، آپ کے لئے دورانِ سفر روزہ رکھنا دشوار ہے، اس صورت میں روزہ نہ رکھئے، بعد میں اسکی قضا کرلیجئے، یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ آپ بیمار ہیں: وَ مَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لااَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ یعنی اسلام ایک نرم اوردرگزر کرنے والا دین ہے۔ حتیٰ اگرآپ کو نقصان کا اندیشہ ہو، ضروری نہیں کہ نقصان کا سو فیصد یقین ہو، اور ممکن ہے آپ کے دل میںیہ خوف کسی فاسق یا کافر طبیب کے کہنے سے پیدا ہوا ہو، لیکن بہرحال یہ خوف اور اندیشہ آپ کے دل میں پیدا ہوگیا ہے۔ اورایک حدیث میں ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ یہ خوف اور اندیشہ کسی اور کے دل میں بھی پیدا ہوا ہو اور دوسرے بھی خوفزدہ ہوں: اِنَّ الْاِنْسَانَ عَلیٰ نَفْسِہِ بَصِیْرَۃٌ۔(۲) اگرآپ خود اپنے دل میں یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کو یہ خوف ہے کہ کہیں روزے سے آپ کی بیماری شدت اختیارنہ کرلے، تو یہی کافی ہے اور کسی اور سے پوچھناضروری نہیں ہے۔ حتیٰ ایک عمر رسیدہ انسان کے لئے، یا ایک ایسی عورت کے لئے جو حاملہ ہے اورجس کے وضعِ حمل کا وقت نزدیک ہے، ضروری نہیں ہے کہ نقصان کا اندیشہ ہو۔ ایک عمر رسیدہ مرد یا عورت ممکن ہے انہیں ضررکا خوف بھی نہ ہو لیکن (کیونکہ) عمر رسیدہ ہیں اوربہت بوڑھے ہوچکے ہیں (اس لئے اُن پرروزہ واجب نہیں ہے)۔ یہ ہے نرمی اور درگزر ۔
مرحوم آیت اللہ شیخ عبد الکریم حائری اعلی اللہ مقامہ اپنی عمر کے آخر میں بوڑھے ہوچکے تھے اور روزہ ان کے لئے دشوار تھا، پھر بھی روزہ رکھتے تھے۔ ان سے کسی نے کہا: آپ روزہ کیوں رکھتے ہیں؟ آپ نے خود اپنی توضیح المسائل میں لکھا ہے اور خودآپ کا فتویٰ ہے کہ بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت پر روزہ واجب نہیں ہے۔ کیاآپ کا فتویٰ بدل گیا ہے، یا آپ اب بھی اپنے آپ کو بوڑھا نہیں سمجھتے؟ انہوں نے کہا: نہیں، میرا فتویٰ تبدیل نہیں ہواہے، اور میں خود بھی جانتا ہوں کہ بوڑھا ہوچکا ہوں۔ }اُس نے پوچھا:{پھر روزہ کیوں رکھتے ہیں؟ کہنے لگے: میری عوامی سوچ مجھے اجازت نہیں دیتی۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بُعِثْتُ عَلَی الشَّرِیْعَۃِ السَّمْحَۃِ السَّھْلَۃِ۔ خدا نے مجھے ایک نرم اور خاص موارد میں سہل اورآسان دین و شریعت پر مبعوث کیا ہے۔ یہ ایک عملی دین ہے۔ غیر عملی دین نہیں ہے۔
اتفاقاً جو لوگ اسے باہر سے دیکھتے ہیں، جن چیزوں کی وجہ سے اسلام سب کو جذب کرلیتا ہے، ان میں سے ایک اس دین کی سہولت اور نرمی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس دین کی تبلیغ کرنے والے کو، اس دین کی نرمی اور سہولت کا مبلغ ہونا چاہئے، ایسا کام کرے جس کی وجہ سے لوگوں میں دینی کاموں کے لئے شوق اور رغبت پیدا ہو۔
۱۔ مجھے ملامت کرنا چھوڑ دو، کیونکہ ملامت جری کردیتی ہے، اور میری دوا کرو اس چیز سے کہ جو درد ہے۔
۲۔انسان خوداپنے نفس سے آگاہ ہے۔