حضرت علی ؑ اورمصلحتوں کااستعمال
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
حضرت علی علیہ السلام کی سیاست میں لچک کیوں نہیں تھی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اُن کا مقصد نیک تھا۔ ابن عباس جیسے لوگ انہیں آخر کیا مشورہ دے رہے تھے؟ مغیرۃ بن شعبہ جیسے لوگوں کی تجویزآخر کیا تھی؟ یہی مغیرۃ بن شعبہ جو بعد میں معاویہ کے خاص اصحاب اورحضرت علی ؑ کے دشمنوں میں شامل ہوگیا تھا، یہ امیر المومنین ؑ کی خلافت کے آغاز میں گفتگو کے لئے آپ کے پاس آیا، پہلے بڑے ہی سیاسی انداز میں آپ کو یہ مشورہ دیا کہ میرا خیال ہے کہ آپ فی الحال معاویہ کے بارے میں کچھ نہ بولیں، حتیٰ اس کی توثیق کردیں۔ یعنی حکمرانی کے لائق دوسرے لوگوں کی طرح، فی الحال اسکی بھی توثیق کردیں، اسے نظر انداز کردیں تاکہ وہ مطمئن ہوجائے، اور پھر جوں ہی حالات پر آپ کی گرفت ہوجائے، یکایک اسے معزول کردیں۔ حضرت نے فرمایا: میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا، کیونکہ اگر میں وقتی طور پرمعاویہ کی توثیق کر دوں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں معاویہ کوچاہے وقتی طور پر ہی سہی، حکومت کے لائق سمجھتا ہوں، جبکہ میں اسے اس لائق نہیں سمجھتا، اورمیں اس بارے میں لوگوں سے غلط بیانی بھی نہیں کروں گا، زبردستی بھی نہیں کروں گا۔ جب مغیرۃ بن شعبہ نے دیکھا کہ اس کی باتیں بے اثر ثابت ہورہی ہیں، تو کہنے لگا کہ میں نے بھی غور کیاتھا تو اسی نتیجے پر پہنچا تھا کہ آپ کو ایسا ہی کرنا چاہئے، آپ حق بجانب ہیں۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ ابن عباس نے کہا: اس نے جو پہلی بات کہی تھی وہ اس کے دل کی بات تھی لیکن اس نے جو دوسری بات کی وہ اس کی سوچ نہیں تھی۔ مغیرہ اس گفتگو کے بعد معاویہ کے پاس چلا گیا۔
حضرت علی علیہ السلام نے کیوں اس کی بات نہیں مانی؟
اس لئے کہ آپ انبیاؑ کی راہ و روش پر چلنے والے تھے اوراس قسم کی سیاست بازیوں کے حق میں نہیں تھے۔ یہ جوکہا جاتا ہے کہ ابوبکر نابغہ تھے، عمر نابغہ تھے، ان کایہ نابغہ ہونا اسی حوالے سے تھا کہ وہ اپنے مقصد کے لئے کوئی بھی ذریعہ استعمال کر لیتے تھے۔ کچھ لوگ کیوں علی ؑ کی سیاست کو قبول کرنا نہیں چاہتے؟ کیونکہ دیکھتے ہیں کہ ان کی سیاست میں لچک نہیں ہے، ان کا ایک ہدف ہے اور کچھ ذرائع ہیں۔ ان کا ہدف حق ہے، جب وہ حق تک پہنچنا چاہتے ہیں، تو ہر گام پر ایسے ذریعے سے استفادہ کرتے ہیں جو حق ہو، تاکہ اس ہدفِ حق تک پہنچ جائیں۔ لیکن دوسرے لوگ، اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ ان کا ہدف حق ہے، تب بھی وہ ذرائع کو اہمیت نہیں دیتے، وہ کہتے ہیں کہ مقصد نیک ہونا چاہئے۔
حضرت علی ؑ اور دشمن پر پانی کی بندش
واقعاً ہمیں اپنے عظیم دینی پیشواؤں، یعنی معصومین علیہم السلام کے حالاتِ زندگی پر غور و فکر کرنا چاہئے، ہمیں دیکھنا چاہئے کہ وہ کیسے تھے؟ اس بارے میں بہت زیادہ غور وفکر کی ضرورت ہے۔ جنگِ صفین، فرات کے ایک کنارے پر واقع ہوئی۔ معاویہ کے اصحاب نے ”گھاٹ“ یعنی اس جگہ پر قبضہ کرلیا جہاں سے پانی لیا جاسکتا تھا۔ بعد میں وہاں حضرت علی ؑ پہنچے تو ان کے اصحاب کو پانی نہیں ملا۔آپ نے کسی کومعاویہ کے پاس بھیجا اور ان سے کہا کہ ابھی تو ہم مذاکرات اور بات چیت کے لئے آئے ہیں، تاکہ خداوند متعال امن و امان کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان اس مشکل کو حل کردے۔ تم نے ایسا کیوں کیاہے؟ لیکن معاویہ جو یہ سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے، وہ کچھ سننے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ جب امیر المومنین ؑ نے دیکھا کہ کوئی فائدہ نہیں ہورہا، تو حملے کا حکم دے دیا اور اسی دن شام ہونے سے پہلے پہلے معاویہ کے لشکر کو مار بھگایا گیا اور اصحابِ علی ؑ نے گھاٹ پر قبضہ کرلیا۔اب اصحاب نے کہا کہ ہم جیسے کو تیسا جواب دیں گے اور انہیں پانی نہیں لینے دیں گے۔ حضرت علی ؑ نے فرمایا: لیکن میں ایسا نہیں کروں گا، کیونکہ پانی ایک ایسی چیز ہے جسے خدا نے کافر اور مسلمان سب کے لئے بنایا ہے۔ یہ عمل شجاعت اور مردانگی کے خلاف ہے، اُن لوگو ں نے ایسا کیا، لیکن تم ایسا نہ کرنا۔حضرت علی علیہ السلام نہیں چاہتے تھے کہ ایک بزدلانہ فعل کے ذریعے کامیابی حاصل کریں۔
بزرگوں کی سیرت میں ایسے بہت سے نکتے پائے جاتے ہیں۔