سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ

دعوت کے حوالے سے ایک اور مسئلہ، وہ چیزہے جس کے بارے میں قرآن کی آیت فرماتی ہے:

الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا

اور جو خدا کے پیغام (جوں کے توں) پہنچاتے اور اس سے ڈرتے ہیں اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ اور خدا ہی حساب کرنے کو کافی ہے۔ سورۂ احزاب۳۳۔آیت ۳۹

یہ دین و مذہب کے داعیوں اور مبلغوں کے لئے کمرتوڑ آیات میں سے ہے: جو لوگ الٰہی پیغامات کی تبلیغ کرتے ہیں، جو لوگ خدائی پیغامات کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں اورجن میں دو شرائط پائی جاتی ہیں: ایک یہ کہ وہ خود خدا سے ڈرتے ہیں (اور دوسرے یہ کہ خداکے سوا کسی سے نہیں ڈرتے) خود خدا سے ڈرتا ہے اور ایک خدا ترس انسان ہے، اور خوفِ خدا اور خشیتِ الٰہی اس کے دل میں گھر کرچکی ہے۔

اِنَّمَا یَخْشَی اﷲَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمآؤُا۔

اللہ کے عالم بندے اس سے خوف وخشیت رکھتے ہیں۔ سورہ فاطر۳۵۔آیت ۲۸

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں میں (اور یہ دعائیں ہماری دعاؤں کی کتابوں میں موجود ہیں)ایک دعا ہے، جسے پندرہویں شعبان کی رات کو پڑھنا چاہئے، لیکن لکھتے ہیں کہ اس دعا کو ہر وقت پڑھا کرو۔ اگرچہ یہ شبِ نیمۂ شعبان کے لئے ہے لیکن نیمۂ شعبان کے علاوہ بھی اسے پڑھنا بہتر ہے اور پیغمبر اکرؐم کی دعا ہے:

اَللّٰہُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْیَتِکَ مَا یَحُولُ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ مَعْصِیَتِکَ وَ مِنْ طَاعَتِکَ مَا تُبَلِّغُنَا بِہِ رِضْوَانَکَ وَ مِنَ الْیَقِیْنِ مَا یَھُونُ عَلَیْنَا بِہِ مُصِیْبَاتُ الدُّنْیَا۔ اَللّٰہُمَّ اَمْتِعْنَا بِاَسْمَاعِنَا وَ اَبْصَارِنَا وَ قُوَّتِنَا مَا اَحْیَیْتَنَا وَ اجْعَلْہُ الْوَارِثَ مِنَّا وَ اجْعَلْ ثَارَنَا عَلیٰ مَنْ ظَلَمَنَا وَ انْصُرْنَا عَلیٰ مَنْ عَادانَا وَ لَاتَجْعَلْ مُصِیْبَتَنَا فِیْ دِیْنِنَا وَ لَاتَجْعَلِ الدُّنْیَا اَکْبَرَ ھَمِّنَا وَ لَامَبْلَغَ عِلْمِنَا وَ لَاتُسَلِّطْ عَلَیْنَا مَنْ لَایَرْحَمُنَا بِرَحْمَتِکَ یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔

یہ وہ دعا ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھا کرتے تھے۔ جو لوگ اسے یاد کرنا چاہتے ہیں، وہ اسے مفاتیح الجنان یا زاد المعاد میں اعمالِ شبِ نیمۂ شعبان میں دیکھ لیں، یہ وہاں موجود ہے۔ یہ ان دعاؤں میں سے ہے جن میں انسان کی دنیا وآخرت کی مصلحتیں جمع ہیں۔اس کا پہلا جملہ یہ ہے:

اَللّٰہُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْیَتِکَ مَا یَحُولُ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ مَعْصِیَتِک۔

پروردگارا! اپنی ہیبت و خشیت میں سے ہمیں اس قدر نصیب فرما کہ ہمیشہ وہ خشیت ہمارے دل میں موجود رہے اوریہ خشیت ہمارے اور گناہوں کے درمیان حائل اور مانع بن جائے۔

قرآنِ مجیدمبلغ کے بارے میں اس}زیر بحث{ آیت میں جس پہلی شرط کا ذکر کرتا ہے وہ خشیت اللہ ہے، یعنی وہ اپنے دل میں خوفِ خدا رکھتا ہے ۔ یعنی اسکے دل میں اللہ کی ایسی ہیبت اور عظمت ہوتی ہے کہ جوں ہی اسکے قلب میں کسی گناہ کا تصور پیدا ہوتا ہے، تو یہ خشیت گناہ کو پیچھے دھکیل دیتی ہے۔

وَ لااَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اﷲَ ۔

اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔

وہ خدا سے ڈرتا ہے اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔ البتہ خشیت کے ایک خاص معنی ہیں جو خوف سے مختلف ہیں۔ ”خوف“ یعنی انجام اورمستقبل کا اندیشہ ہونا، کسی کام کے مستقبل اور اس کے انجام کے لئے فکر و تدبیر کرنا۔ لیکن ”خشیت“ وہ حالت ہے جس میں انسان پر خوف مسلط ہوجاتا ہے اور وہ جرأت کھو بیٹھتا ہے۔ اپنی جرأت کھو بیٹھنا، یعنی شجاعت کا نہ ہونا، دلیری کا نہ پایا جانا۔ لیکن کسی کام کے ممکنہ انجام کے بارے میں تشویش کا شکار ہوکر عاقلانہ تدابیر اختیار کرنا، انسان کے اپنی جرأت اورشجاعت کھو بیٹھنے سے مختلف چیز ہے۔ قرآنِ مجیدکہتا ہے: اللہ کی طرف بلانے والے اور حقیقی مبلغین، خدا کے سامنے خشیتِ الٰہی رکھتے ہیں، خدا کے مقابلے میں جرأت اور جسارت ان میں ذرّہ برابر نہیں ہوتی، لیکن غیرِ خدا کے مقابلے میں وہ سراپا جرأت ہوتے ہیں اور ذرّہ برابر حواس باختہ نہیں ہوتے۔ وَ لااَا یَخْشَوْنَ اِلَّا اﷲَ۔

انبیا ؑ اور خصوصاً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کی ایک اور خصوصیت یہی جرأت، یعنی اپنے حواس نہ کھو بیٹھنا اورثابت قدم رہنا ہے۔یہ چیز ہمیں پیغمبر اسلاؐم کی زندگی میں بہت زیادہ نمایاں نظر آتی ہے ۔ ایک فرنگی نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے ”محمد ؐوہ پیغمبر جسے نئے سرے سے پہچاننا چاہئے“۔ اگرچہ اس کی کتاب میں کچھ عیب بھی ہیں، لیکن اس اعتبار سے کہ اس نے اپنی کتاب پر بہت محنت کی ہے اور تاریخِ اسلام کا بہت زیادہ مطالعہ کیا ہے، حتیٰ برسوں وہ عربستان میں رہا تاکہ تاریخ کو جغرافیائی علاقے کے اعتبار سے بھی تطبیق کر لے۔اس کتاب میں اچھے نکات بھی ہیں۔ دو نکات کو اس کتاب نے اچھی طرح مجسم کیا ہے، شاید کسی اور کتاب نے ان دو نکات کو اتنی اچھی طرح سے مجسم نہ کیا ہو۔ ان میں سے ایک رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غیر معمولی تدبر ہے کہ اگر ایک غیرمسلم بھی اس کتاب کا مطالعہ کرے تو وہ بھی نبی اکرؐم کو ایک حکیم، مدبر اور غیر معمولی سیاستدان سمجھے بغیر نہیں رہ سکتا، اور دوسرے یہ کہ نبی اکرؐم کسی حالت میں بھی، کہ اگر کوئی اور ہو تو حواس باختہ ہوجائے اور اپنی جرأت کھو بیٹھے، ذرّہ برابران کی حالت نہیں بدلتی تھی ۔ کبھی حالات اس نہج پر پہنچ جاتے کہ (ظاہری طور پر اور ظاہری حالات کے اعتبار سے) مسلمانوں کے لئے امید کی کوئی کرن باقی نہیں رہ جاتی تھی۔ ان حالات میں بھی جب انسان پیغمبر کو دیکھتا ہے تو دیکھتا ہے کہ کَالْجَبَلِ الرّاسِخ پہاڑ کی طرح جمے ہوئے ہیں: وَ لااَا یَخْشَوْنَ اِلَّا اﷲَ واقعی! آپ تاریخِ پیغمبر کا اس اعتبار سے مطالعہ کیجئے (اور ہر اعتبار سے مطالعہ کرنا چاہئے) تاکہ الَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اﷲِ وَ یَخْشَوْنَہٗ وَ لااَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اﷲَ۔ کے معنی سمجھ سکیں اور دیکھ سکیں کہ پیغمبر کس طرح اپنے خدا سے خشیت رکھتے تھے اور کس طرح غیر خدا سے خشیت اور خوف نہیں رکھتے تھے اور کسی چیز کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔