بدعت اوراختراع
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
آج کل ”اختراع“ کو ”بدعت“ کہاجاتا ہے۔ دین کے علاوہ دوسرے معاملات میں اختراعات میں کوئی برائی نہیں ہے۔ ایک انسان شاعری میں مخترع بنناچاہتا ہے، ایک انسان ہنر میں مخترع ہونا چاہتا ہے، کوئی فلسفے میں مخترع بننے کاخواہشمند ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن دین میں اختراع کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ دین لے کرآنے والے ہم نہیں ہیں۔ حتیٰ امام ؑ بھی دین لے کر نہیں آئے ہیں۔ امام ؑ پیغمبرؐ کے وصی اور اُن کے علم کا مخزن ہیں۔ جو کچھ پیغمبرؐ نے فرمایا ہے (یہ اُسے بیان کرتے ہیں)۔
خود پیغمبر بھی دین} ایجادکر کے{ نہیں لائے ہیں۔ خدا پیغمبر کو کبھی فرشتے کے ذریعے اور کبھی فرشتے کے بغیر دین کی وحی کرتا ہے، پیغمبر لوگوں تک پہنچاتا ہے، اور اس سب کو ایک ساتھ امام کے لئے بیان کرتا ہے۔حتیٰ پیغمبر بھی دین کو} ایجاد کر کے{ نہیں لائے ہیں۔
دین میں اختراع غلط ہے، بدعت ہے اور حرام ہے۔ ہاں، نئے استنباط (deduction) کرنا درست ہے، یہ اختراع نہیں ہے۔ اخباری حضرات اجتہاد کواختراع تصور کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تمام اجتہادات بدعت ہیں۔وہ غلط سمجھتے ہیں۔ اجتہاد یعنی حسنِ استنباط۔ ممکن ہے ایک مجتہد کسی بات کا نئے انداز سے استنباط کرے، جسے پہلے وہ خود یا دوسرے کسی اور طرح سے استنباط کیا کرتے تھے۔ یہ، استنباط کا مسئلہ ہے، ایجاد کا نہیں۔آج، ہر جدت کو بدعت کا نام دیتے ہیں اور بدعت کی حمایت کرتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں کہ فلاں نے بدعت ایجاد کی ہے۔ لیکن ہمیں غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔سرے سے یہ اصطلاح ہی غلط ہے۔ ہمارے یہاں قدیم زمانے ہی سے ”بدعت“ کے معنی دین میں اختراع کرناہیں، اِدْخالٌ فِی الدّینِ مالَیْسَ فِی الدّین۔کسی اور چیز کو بدعت نہیں کہنا چاہئے۔ البتہ بعد میں رفتہ رفتہ یہ نہ کہنے لگئے گا کہ بدعت میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ہم نے اسے اس لئے بیان کیا ہے تاکہ بعض جوان غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ اگرآج اختراع کو بدعت کہتے ہیں، تواگر یہ بدعت ہنری، شعری، فلسفی یا علمی مسائل میں ہو، تو نہ صرف عیب نہیں بلکہ کمال ہے۔ لیکن دین میں، اوروہ بھی اختراع کے معنی میں، نہ کہ اجتہاد کے معنی میں، یعنی جو چیز دین میں نہیں ہے اسے اپنی طرف سے گھڑ لینا، گناہانِ کبیرہ میں سے ہے۔ یہاں تک کہ حدیث ہے:
مَنْ زارَ مُبْدِعاً (مُبْتَدِعاً) فَقَدْ خَرَّبَ الدِّینَ۔
جو شخص کسی بدعتی سے ملنے کے لئے گیا، اُس نے دین کو برباد کردیا۔
یعنی اگر کوئی شخص دین میں کوئی بدعت پیدا کرتا ہے، تو دوسروں پراس سے میل ملاقات حرام ہے، ایسے شخص کے ساتھ میل جول رکھنا تک حرام ہے۔
بہر حال، بدعتی افراد کے بارے میں ایک حدیث ہے، جس کے ضمن میں کہا گیا ہے کہ جب بھی تم بدعت ایجاد کرنے والوں کو دیکھو، تو ”فَباھِتوھُمْ۔“ ”باہِتوہُمْ“ یہ ”بَھَت“ سے نکلا ہے اور یہ دو مقامات پر استعمال ہوتا ہے، ایک مبہوت کرنے، شکست دینے اور متحیر کردینے کے معنی میں، جیسا کہ خود قرآنِ مجید میں آیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے زمانے کے جبّار سے بحث و مباحثہ کیااورآخرکار فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَ۔ وہ ابراہیم ؑ کی منطق کے مقابلے میں زچ ہوگیا، مبہوت ہوگیا، ناکام ہوگیا، ذلیل ہوگیا۔اور دوسرے بہتان یعنی جھوٹ گھڑنے کے معنی میں، جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ آیت سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌ۔ میں بہتانِ عظیم یعنی بڑے جھوٹ کے معنی میں آیا ہے۔ شیخ انصاری ؒ وضاحت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ اگر بدعت کی بنیاد رکھنے والوں سے سامنا ہو، تو باہِتوہُمْ یعنی مضبوط منطق کے ساتھ ان کا مقابلہ کرو، ، انہیں مبہوت کردو، جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے زمانے کے جبّار کے ساتھ بحث و مباحثہ کیاتھا اور اسے مبہوت کردیاتھا ۔فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَ۔
بدعت گزاروں کا مقابلہ منطق کے ساتھ کرو، تاکہ لوگ جان لیں کہ یہ بدعتی ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں۔ ان کے ساتھ بحث ومباحثہ کرو اور انہیں شکست سے دوچار کردو۔
کچھ لوگوں نے اس حدیث سے اس طرح استفادہ کیا ہے کہ اگر بدعتی لوگوں سے سامنا ہو، تو جھوٹ بولنا جائز ہے، اُن کی طرف جو بات منسوب کرنا چاہوکر دو، جو جھوٹ بولنا چاہو بول دو۔ یعنی بدعتی افراد کی سرکوبی کے لئے، جو ایک مقدس مقصد ہے، اس ناجائز ذریعے، یعنی جھوٹی نسبت دینے سے استفادہ کرو۔اس طرح اس بات کا دائرہ مزید پھیلتا جاتا ہے۔ معقول لوگ کبھی ایسی بات نہیں کرتے، جبکہ نامعقول لوگ بہانہ تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔
نفس کی چالبازیاں عجیب ہیں! نفسِ امارہ کی مکاریاں عجیب ہیں! کبھی کبھی انسان کا نفس ایسی مکاریاں کرتا ہے کہ وہ خود بھی نہیں سمجھ پاتا۔ مثلاً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی شب ہے اور جشن منعقد کرنا چاہتا ہے، شبِ مسرت ہے، اب کیونکہ خوشی ومسرت کی شب ہے، لہٰذا فسق و فجور کا ارتکاب کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ خوشی کی رات ہے، پیغمبر کی ولادت کی شب ہے، کیا کوئی مضائقہ ہے؟ میں تو نبی اکرؐم کی خاطر یہ کام کر رہا ہوں!
ایک داستان ہے، اس کا تعلق اُس زمانے سے ہے جب ایک ”شاہی“(۱) کی اہمیت تھی۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص شراب کی دکان پر گیااور دکاندار سے ایک شاہی کی شراب طلب کی ۔ دکاندار نے کہا کہ ایک شاہی کی تو شراب نہیں آتی۔ کہنے لگا: جتنی آتی ہو دے دو، آخر ایک شاہی بھی کچھ نہ کچھ تو ہوتی ہے۔ دکاندار مصر تھا کہ نہیں کچھ نہیں آئے گا۔ کہنے لگا کہ ایک قران(۲) کی جتنی شراب ہوتی ہے اسے بیس پر تقسیم کردو اور وہی مجھے دے دو۔دکاندار نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک چھوٹی پیالی کی تہ بھی نہیں بھرے گی۔ اُس نے کہا وہی دے دو۔ دکاندار نے کہا کہ لوگ شراب پیتے ہیں تاکہ مست ہوجائیں، اتنی سی شراب کا کیا فائدہ جومیں تمہیں دوں؟ اُس نے کہا تم اتنی ہی دے دو، اس کی بدمستی میرا ذمہ ہے۔
بعض لوگ بدمستی کے لئے بہانے کی تلاش میں رہتے ہیں، پھر بدمستی اُن کی ذمے داری ہوتی ہے۔بس آوارگی اور بدمستی کے لئے ایک بہانہ مل جائے، ان کے لئے کافی ہے۔ کہتے ہیں: ہمیں اجازت دی گئی ہے کہ بدعتی افراد کے لئے جو دل میں آئے جھوٹ گھڑ لیں۔ اس کے بعد }ایسا فرد{ جس سے بھی اسے ذاتی دشمنی ہو، اس کی طرف فوراً ایک جھوٹی نسبت دے دیتا ہے، اُس پرایک تہمت لگا دیتا ہے اور پھر کہہ دیتا ہے کہ وہ بدعتی شخص ہے۔ باتیں گھڑنا، تہمت لگانا اور جھوٹ بولنا شروع کردیتا ہے۔ کیوں؟ کہتا ہے ہمیں اجازت ملی ہوئی ہے۔ پھرآپ دیکھیں کہ دین کی کیا درگت بنتی ہے؟ ہمارا فرنگی افکار رکھنے والا کہتا ہے ”اَلْغایاتُ تُبَرِّرُالْمَبادی۔“مقصد نیک ہونا چاہئے، جب مقصد نیک ہو، تو}اسکے حصول کا{ ذریعہ کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ ہمارا قدامت پرست بھی کہتا ہے کہ ہمیں کہا گیا ہے ”باہِتوہُم۔“ہمیں حق حاصل ہے کہ جو ہمارا دل چاہے بول دیں، اور جو ہمارا دل چاہے گا ہم بولیں گے۔ پھرآپ دیکھئے گا کہ دین کی کیا حالت ہوتی ہے؟
ابوہریرہ اور پیاز فروش
جس زمانے میں ابوہریرہ، معاویہ کی جانب سے مکہ کے حاکم تھے، اس زمانے میں ایک شخص عکہ (یہی موجودہ عکہ) سے پیاز فروخت کرنے کے لئے مکہ آیا ۔ وہ پیازکسی نے نہیں خریدی۔ پیاز یوں ہی پڑی رہی، اسے کسی اور جگہ لے جانا بھی ممکن نہیں تھا، گرمی میں سڑ رہی تھی۔وہ شخص ابوہریرہ کے پاس گیا اور بولا: اے ابوہریرہ! ایک ثواب کا کام کرسکتے ہو؟ کہا: کیسا ثواب؟ بولا: میں ایک مسلمان ہوں، مجھے بتایا گیا تھاکہ مکہ میں پیاز نہیں ہوتی اور مکہ کے لوگوں کو پیاز کی ضرورت ہے، میرے پاس جتنا سرمایہ تھا، اُس سے میں نے پیاز خرید لی اوراُسے یہاں لے آیا، اب یہاں کوئی اُسے خرید نہیں رہا، اور پیاز خراب ہو رہی ہے۔ تم ایک مومن کی مشکل حل کرسکتے ہو، ایک انسان کو مرنے سے بچا سکتے ہو۔ کیا تم یہ کام کر سکتے ہو؟ کہا: ٹھیک ہے، جمعے کے دن، نمازِ جمعہ کے وقت، تم پیاز ایک مقررہ مقام پر لے آنا، پھر میں دیکھ لوں گا۔ اس دن جب تمام لوگ جمع ہوئے تو ابو ہریرہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا: اَیُّھَاالنَاسُ سَمِعْتُ مِنْ حَبیبی رَسولِ اللّٰہ۔ }اے لوگو! {میں نے اپنے حبیب رسول اللہ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: مَنْ اَکَلَ بَصَلَ عَکَّۃَ فِی مَکَّۃَ وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ۔ جو کوئی عکہ کی پیاز مکہ(۳) میں کھائے گا اس کے لئے جنت واجب ہے۔}یہ سننے کے بعد{ ایک گھنٹے کے اندر اندر لوگوں نے ساری پیاز خرید لی۔ ابوہریرہ کا ضمیر بھی مطمئن تھا کہ میں نے ایک مومن کی مشکل حل کی ہے، ایک مسلمان تاجر کو دیوالیہ ہونے سے بچالیاہے۔
ذرا سوچئے کیا پیغمبر کی حدیث کو ان کاموں کے لئے ذریعہ بناناچاہئے؟ اس کے بعد اسی حوالے سے کیا کچھ نہیں کہا گیا! شاید شہروں کی فضیلت میں بیان کی گئی سو میں سے پچانوے خبریں اور حدیثیں وہ ہیں جو لوگوں نے اپنے فائدے کے لئے گھڑی ہیں۔ مثلاً کہا گیا ہے کہ پیغمبر نے فرمایا: خَیْرُ الْقُریٰ بَیْھَق۔ بہترین قریہ (اس میں گاؤں اور شہر دونوں شامل ہیں) بیہق ہے، یہی جو سبزوار کے نزدیک واقع ہے۔ نبی اکرؐم کو بیہق سے کیا مطلب کہ وہ اتنے سارے مقامات کو چھوڑ کر یہ کہیں کہ خَیْرُ الْقُریٰ بَیْھَق۔ کیوں؟ اس لئے کہ بیہق کے رہنے والے فلاں صاحب اپنے لئے کوئی راستہ پیدا کرنا چاہتے تھے۔ اسی طرح کی اور باتیں کہ اگرہم ان کی مثالیں بیان کرنا شروع کریں، تو الیٰ ما شاء اللہ بہت زیادہ ہیں اور ہم ا نہیں ذکر کرنا نہیں چاہتے، لیکن اتنا جان لیجئے کہ ان چیزوں نے دین کوخراب کیا ہے، حالانکہ جیساکہ انہوں نے (علامہ طباطبائی) نے فرمایا ہے کہ آدابِ نبوت اورتمام انبیا ؑ کی مجموعی سیرت کا حصہ یہ رہا ہے کہ انہوں نے مقدس مقصد، یعنی حق کے لئے کسی صورت باطل سے استفادہ نہیں کیا ۔
۱۔ ایک قدیم ادنیٰ ایرانی سکہ۔
۲۔ قران، عہدِ قاچار میں ایرانی کرنسی کی ایک اکائی تھی۔
۳۔ خاص طور پر مکہ میں، مکہ کے سوا اور کہیں نہیں، اور وہ پیاز بھی عکہ کی ہو، عکہ کے سوا کسی اور جگہ کی نہ ہو۔