سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ

تبلیغ اور دعوت کے حوالے سے ایک اور نکتہ ہے، جس کا قرآنِ مجید نے اس بیان اور اسکی مانند دوسرے بیانات کے ذریعے ذکر کیا ہے: ذَکِّرْ۔ ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

وَ ذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔

اور یاددہانی بہر حال کراتے رہئے کہ یاددہانی صاحبانِ ایمان کے حق میں مفید ہوتی ہے۔ سورۂ ذاریات ۵۱۔آیت۵۵

اور ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے:

فَذَکِّرْاِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ اِلَّا مَنْ تَوَلّٰی وَ کَفَرَ فَیُعَذِّبُہُ اﷲُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ۔

لہٰذا تم یاددہانی کراتے رہو کہ تم صرف یاددہانی کرانے والے ہو، تم ان پر مسلط اور ان کے ذمے دار نہیں ہو، مگر جو منہ پھیر لے اورکافر ہوجائے، تو خدا اسے بہت بڑے عذاب میں مبتلا کرے گا۔ سورۂ غاشیہ۸۸۔آیت ۲۱ تا ۲۴

جواستثنا کے بارے میں ہے اورجس پر علیحدہ سے گفتگو کی ضرورت ہے۔ اے پیغمبرؐ! لوگوں کو بیدار کیجئے، متوجہ کیجئے، یاددہانی کرایئے۔

قرآنِ مجید میں دو مفاہیم کا تذکرہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ کیا گیا ہے ۔ان میں سے ایک تفکرہے اور دوسرا تذکر۔ تفکر یعنی کسی ایسی چیزکو کشف (discover)کرنا جسے ہم نہیں جانتے، جس چیزکو ہم نہیں جانتے اسے معلوم کرنے کے لئے غور وخوض کرنا۔ قرآنِ مجید تفکر کی دعوت بھی دیتا ہے۔ لیکن تذکریعنی یاد دہانی۔ تَذکار یعنی یاد دلانا۔

انسانی فطرت میں ( اورحتیٰ کبھی انسانی تعلیم میں بھی) بہت سے مسائل پائے جاتے ہیں لیکن انسان ان سے غافل رہتاہے، اسے جھنجھوڑنے اور بیدار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، تذکر اور یاد دہانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بالفاظِ دیگر انسان کی دو مختلف حالتیں ہیں۔ ایک جہالت کی حالت اوردوسری نیند کی حالت۔ کبھی ہم اپنے اردگرد سے اپنی جہالت کی وجہ سے بے خبر ہوتے ہیں ۔ہم بیدارہوتے ہیں لیکن کیونکہ نہیں جانتے اس لئے بے خبرہوتے ہیں۔ اور کبھی اپنے اردگرد سے بے خبر ہوتے ہیں، اس بے خبری کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ ہمیں علم نہیں ہوتا، ہمیں علم ہوتا ہے لیکن فی الحال عالمِ خواب میں ہوتے ہیں۔ سویا ہوا انسان عالم اور باخبر ہوتا ہے لیکن اُس پر ایک ایسی حالت طاری ہوجاتی ہے کہ وہ اپنی معلومات سے استفادہ نہیں کرپاتا۔ یہ ظاہری نیند کی بات تھی ۔ انسان کی ایک اور نیند بھی ہے جسے خوابِ غفلت یا غفلت کا نام دیا گیا ہے ۔ اے پیغمبر! آپ یہ نہ سمجھئے گا کہ آپ کا سامناصرف جاہل سے ہے، بلکہ آپ کا سابقہ غافل سے بھی ہے۔آپ جاہل کو تفکرکی اور غافل کو تذکر کی دعوت دیجئے۔ لوگ جاہل ہونے سے زیادہ غافل اور نیند میں ہوتے ہیں۔ جو سو رہے ہیں آپ انہیں بیدار کیجئے اورجو غافل ہیں انہیں ہوشیارکیجئے۔ جب آپ سوئے ہوئے کو بیدار کریں گے، تو وہ ازخود کام کے لئے چل پڑے گا۔ ایک انسان اگرسو رہا ہو اور اسے کوئی خطرہ درپیش ہو، مثلاً قافلہ چل پڑے اور وہ سو رہا ہو، تو آپ اُسے بیدار کیجئے۔جب آپ نے اسے بیدار کردیا، تو اب اُسے خطرے کی اطلاع دینا ضروری نہیں ہے! بلکہ جوں ہی وہ بیدار ہوگا خود ہی دیکھ لے گا کہ اسے خطرہ درپیش ہے۔ بالفاظِ دیگر جب وہ بیدار ہوجائے تو ضروری نہیں کہ آپ اُس سے چلنے کے لئے کہیں، بلکہ جب وہ بیدار ہوگا اوردیکھے گا کہ قافلہ چل پڑا ہے، تو وہ ازخود قافلے کے پیچھے چل پڑے گا۔ یہی وجہ ہے جو (قرآنِ مجید پیغمبر اکرمؐ سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے)وہ احساسات جو لوگوں میں پائے جاتے ہیں(اور وہ اِن سے غافل ہیں) آپ اُن سوئے ہوئے احساسات کو بیدار کیجئے۔ ایمان کا ایک حصہ، سوئے ہوئے احساسات کی بیداری ہے۔ اور اسی لئے اسلام میں جبر یعنی ایمان پر مجبور کرنا نہیں ہے ۔

فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرٌ۔ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ

تو تم نصیحت کرتے رہو کہ تم نصیحت کرنے والے ہی ہو۔ تم ان پر داروغہ نہیں ہو- سورۂ غاشیہ ۸۸۔ آیت ۲۱-۲۲

لااَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الغَی۔ سورۂ بقرہ۲۔آیت ۲۵۶

اسلام میں ایمان کے بارے میں جبر نہیں ہے، یہ خود ایک مسئلہ ہے، جسے تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ انشاء اللہ بعد میں اس نکتے پر مفصل گفتگو کریں گے۔ اس وقت صرف چند جملے عرض کررہے ہیں۔

ایمان میں جبر نہیں

کیا اسلام میں ایمان کے بارے میں جبر پایا جاتا ہے، جس کے تحت لوگوں کو مؤمن بننے پر مجبور کیا جائے؟ نہیں، اسلام میں ایسا نہیں ہے۔ کس دلیل کی بنیاد پر؟ بہت سے دلائل کی بنیاد پر۔

اسکی پہلی دلیل یہ ہے کہ ایمان میں جبر کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ جو چیز انبیاؑ چاہتے ہیں وہ ایمان ہے، ظاہری اسلام اور اسلام کا اظہارنہیں، اور ایمان میں جبر کی گنجائش ہی نہیں ہے، کیونکہ ایمان اعتقاد ہے، میلان ہے، لگاؤ ہے۔اعتقاد کو بالجبرپیدا نہیں کیا جاسکتا۔ لگاؤ اور مہر و محبت طاقت کے زور پر نہیں پیدا کئے جاسکتے، باطنی میلان دباؤ ڈال کر نہیں پیداکیا جاسکتا۔ کیا کوئی ماں باپ اپنی لڑکی سے ایک ایسے لڑکے کے بارے میں جسے وہ ناپسند کرتی ہے اور وہ اس کا رشتہ لے کر آیا ہے یہ کہہ سکتے ہیں کہ :ابھی ہم ایک ایسا کام کرتے ہیں کہ تم اسے پسند کرنے لگو گی، ذرا ڈنڈا تو لانا ہم تمہیں اس قدر ماریں گے کہ تم اسے پسند کرنے لگو گی؟ جی ہاں، یہ توہوسکتا ہے کہ اسے اس قدر مارا جائے کہ وہ کہنے لگے کہ میں اسے پسند کرتی ہوں، یعنی وہ غلط بیانی پر اتر آئے، لیکن اگر دنیا بھر کے سارے ڈنڈے اس پر توڑ دیئے جائیں، تو کیا ان ڈنڈوں سے اس کے دل میں محبت پیدا کی جاسکتی ہے؟ ایسا ہونا محال ہے۔ اس کا دوسرا طریقہ ہے ۔ اگر ہم لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا چاہتے ہیں، تو اس کا طریقہ جبر اور طاقت کا استعمال نہیں ہے، اس کاطریقہ حکمت ہے، وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ ہے، جَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ ہے۔ اب ممکن ہے اسلام میں جہاد جیسے مسائل پیش آئیں جن کے بارے میں انشاء اللہ بعد میں گفتگو کریں گے۔ ایک مختصر حدیث آپ کے سامنے بیان کرنے کے بعد تدریجاً اپنی گفتگو ختم کریں گے۔

حدیث میں ہے( بحار میں) کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام منبرپرتشریف فرما تھے۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا (یہ وہ جملہ ہے جو آپ بارہا دُہرایا کرتے تھے): اَیُّہَاالنّاسُ سَلونی قَبْلَ اَنْ تَفْقِدونی۔(۱) قبل اسکے کہ مجھے اپنے درمیان نہ پاؤ، تمہارے ذہن میں جو سوال ہو، وہ مجھ سے پوچھ لو اور تم جو کچھ پوچھوگے میں اُس کاجواب دوں گا۔ میں زمین کے راستوں سے زیادہ آسمان کی راہوں سے واقف ہوں۔ یعنی چاہو تو زمین کے بارے میں سوال کرو اور چاہو توآسمان کے بارے میں پوچھو، کوئی پابندی نہیں ہے۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک شخص جس کے حلیے سے معلوم دیتا تھا کہ اس کا تعلق مھودۂ عرب سے ہے، یعنی وہ یہودی عربوں میں سے ہے (اس کے خط وخال سے معلوم دیتا تھا کہ وہ عرب ہے اوراسکے لباس اور حلیے سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ یہودی ہے۔ اُسکی علامت بیان کی گئی ہے : مثلاًایک دبلا پتلا، لمبے قد کا، سیاہ پوست انسان جس نے ایک کمان بھی اٹھائی ہوئی تھی ) وہ شخص ایک کونے سے اٹھا اور درشت لہجے میں بولنا شروع کیا: اَیُّہَاالْمُدَّعِی ما لایَعْلَم۔ اے بے جانے بوجھے دعویٰ کرنے والے! یہ کیا کہہ رہے ہو کہ جو چاہو مجھ سے پوچھ لو؟ کیا واقعی جو کچھ تم سے پوچھا جائے اُس سب کا تم جواب دے سکتے ہو؟

وہ شخص حضرت علی علیہ السلام کی توہین کرنے لگا حالانکہ آپ اُس وقت خلیفۂ مسلمین تھے۔ گویا اسے معلوم تھا کہ حضرت علی علیہ السلام کی کیا عادت ہے او روہ فی الفورکسی ایسے شخص کی گردن اڑا دینے کا حکم بھی نہیں دیتے جو انہیں گالی دے رہا ہو۔ کیونکہ اس نے جسارت کی تھی لہٰذا اصحاب اسے سبق سکھانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ فوراً حضرت علی ؑ نے انہیں روکا۔ یہاں آپ کا ایک جملہ ہے جس کی وجہ سے میں نے یہ حدیث نقل کی ہے۔ فرمایا: اَلطَّیْشُ لَایَقُومُ بِہِ حُجَجُ اللّٰہ۔(۲) زور زبردستی سے الٰہی حجتوں کو قائم نہیں کیا جاسکتا۔اس نے ایک بات کہی ہے اور مجھ سے بات کی ہے۔ اس کے ذہن میں ایک سوال ہے، اسے آنے دو، مجھ سے سوال کرنے دو۔ اگر میں نے اس کاجواب دے دیا، تووہ خود ہی اپنے عمل پر پشیمان ہوجائے گا۔آپ نے اپنے اصحاب کو سختی سے روکا۔یہ کیافضول باتیں کر رہے ہو کہ خاموش ہوجاؤ، دفع ہوجاؤ، ذرا اسے سبق سکھاؤ، تمہاری درگت بنا دیں گے؟ (اِن باتوں سے الٰہی حجتیں قائم نہیں ہوتیں)۔ اگرتم حجتِ الٰہی کو قائم کرنا چاہتے ہو، تو اس کا یہ طریقہ نہیں ہے۔ اس کا طریقہ نرمی اور ملائمت ہے، کیونکہ اس کا تعلق دل سے ہے، فکر سے ہے، روح سے ہے۔ جب اسلام کی دعوت اوراسکی تبلیغ کا مقام ہو، تو بات یہ ہوا کرتی ہے۔

حسین ابن علی علیہ السلام جب دشمن کی ضد اور ہٹ دھرمی کا سامناکرتے ہیں، تو اس انداز سے سر اٹھاکر کھڑے ہوتے ہیں کہ کوئی طاقت انہیں ہراساں نہیں کرسکتی، ان کا سر جھکانا تو دور کی بات ہے ۔ لیکن جب آپ ایسے افراد سے ملتے ہیں جن کی رہنمائی اور ہدایت مطلوب ہو، تو آپ ان کی بے اعتنائی سے بھی چشم پوشی کر لیتے ہیں۔

زہیر ابن قین مکہ سے روانہ ہوکر اپنے قافلے کے ساتھ آ رہے ہیں۔ امام حسین ؑ بھی تشریف لا رہے ہیں۔ زہیر کی کوشش ہے کہ ان کا امام حسین ؑ سے سامنا نہ ہونے پائے، یعنی جب انہیں محسوس ہوتا تھا امام حسین ؑ نزدیک ہیں، تواپنے قافلے کو دوسری طرف لے جاتے تھے۔ اگر امام حسین ؑ کسی جگہ پڑاؤ کرتے، خصوصاً کسی چشمے پر، توزہیر کسی اور جگہ اترتے ۔وہ کہتے تھے کہ میں امام حسین ؑ سے نظریں نہیں ملانا چاہتا، اس لئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر تکلفاً مجھے ان کا ساتھ دینا پڑے (یہ ان کی باتوں کا خلاصہ ہے)۔ امام حسین ؑ بھی (زہیرکے گریز کی وجہ) جانتے ہیں۔ لیکن کیونکہ امام حسین ؑ نے سمجھ لیا تھا کہ زہیر دھوکے کا شکار ایک فرد ہیں، اور عثمانی ہیں، یعنی حضرت عثمان کے مرید ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زہیر ایک ایسے ماحول میں رہے تھے جہاں انہیں عثمانیوں نے اپنے گروہ میں شامل کیا ہوا تھا، لیکن وہ ایک بے لوث انسان تھے (امام ؑ اپنے دل میں کہتے ہیں) اس نے ہم سے بے اعتنائی کی ہے، کوئی بات نہیں، ہدایت ورہنمائی ہماری ذمے داری ہے۔ اتفاقاً زہیر ایک ایسے مقام پرپڑاؤ ڈالنے پر مجبور ہوئے جہاں ابا عبد اللہ الحسین ؑ بھی موجود تھے، کیونکہ ان کا قافلہ اگلی منزل تک سفر جاری نہیں رکھ سکتا تھا۔ البتہ امام حسین ؑ نے اپنا خیمہ ایک طرف لگا رکھا تھا اور زہیر نے دوسری جانب۔ امام حسین ؑ جانتے تھے کہ زہیر ان کا سامنا نہیں کرنا چاہتا، لیکن امام انہیں متوجہ کرنا چاہتے تھے: فَذَکِّرْاِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ۔ انہیں بیدار کرنا چاہتے تھے، انہیں خوابِ غفلت سے جگانا چاہتے تھے، انہیں مجبورکرنا نہیں چاہتے۔

آپ نے ایک شخص کو ان کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ زہیر سے کہو کہ: اَجِبْ اَبَا عَبْدِ اللّٰہِ۔ حسین ابن علی ؑ تمہیں یاد کر رہے ہیں، تمہیں بلاتے ہیں۔ زہیر اور ان کے ساتھی ایک خیمے میں حلقہ بنائے بیٹھے تھے، دسترخوان بچھا ہواتھا اوروہ کھانا کھانے میں مشغول تھے۔ اچانک پردہ اٹھا اور وہ شخص اندر داخل ہوا: یازُہَیْرُ! اَجِبْ اَبا عبْدِ اللّٰہ۔ اے زہیر!حسین ابن علی ؑ تمہیں یاد کر رہے ہیں۔ (زہیر نے دل میں کہا:) افسوس! وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ ان کے ساتھی بھی (سارے معاملے) سے واقف تھے۔ لکھا ہے کہ گویا ان کے ہاتھ اٹھے کے اٹھے رہ گئے۔ ایک طرف تو زہیر یہ جانتے تھے کہ امام حسین ؑ کون ہیں، فرزندِ رسولؐ ہیں اور ان کے بلاوے کو مستردکرنا درست نہیں ہے۔ عربوں میں ایک کہاوت ہے، کہتے ہیں: کَاَنَّہُ عَلٰی رَأْسِہِ الطَّیْرُ۔ (گویا اس کے سر پر پرندہ بیٹھا ہوا ہو)۔ ان کے بارے میں(راوی) کہتا ہے: کَأنَّہُ عَلیٰ رُؤُسِہَمُ الطَّیْرُ۔ یعنی وہ اسی طرح ہکا بکا بیٹھے رہ گئے۔ زہیر پریشان تھے کہ کیا جواب دیں ۔ (خیمے کی فضا پر سکوت طاری تھا)۔ زہیر کی ایک صاحبِ معرفت بیوی تھی۔ یہ عورت حالات کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ خیمے کے باہر سے اسے محسوس ہوگیا کہ امام حسین ؑ کا پیام رساں آیا ہے، اور زہیر کو بلا رہا ہے، اور زہیر نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، وہ نہ یہ کہہ رہے ہیں کہ میں آ رہا ہوں اور نہ ہی آنے سے انکار کررہے ہیں۔ اس عارفہ اور مومنہ عورت کی غیرت نے جوش مارا اور اس نے آکر یکایک خیمہ کا پردہ ہٹایا اورسخت لہجے میں بولی: زہیر! تمہیں شرم نہیں آتی؟ فرزندِ فاطمہ تمہیں بلا رہے ہیں اور تم ان کا جواب دینے میں تردد کا شکار ہو؟ اٹھو۔ زہیر فوراً اپنی جگہ سے اٹھے اور امام حسین ؑ کی خدمت میں پہنچ گئے۔

تذکر اور توجہ دلانا اس طرح کام کرتا ہے۔ امام حسین ؑ اور زہیرا بن قین کے درمیان ہونے والی بات چیت کی پوری تفصیل ہمارے پاس نہیں ہے، نہیں معلوم حضرت ؑ نے زہیر سے کیا فرمایا، لیکن جو بات قطعی اوریقینی ہے، وہ یہ ہے کہ جو زہیر امام حسین ؑ کی خدمت میں گیا تھا وہ اس زہیر سے بالکل مختلف تھا جو وہاں سے باہرآیا تھا، یعنی دو بالکل مختلف افراد تھے۔ یعنی تھکا ہوا، خستہ حال، اکتایا ہوا، شرمیلا اور منہ بسورا ہوا زہیر، یکایک دیکھتے ہیں کہ ایک ہشاش بشاش، خوش رُو اور خوش حال زہیر کی صورت امام حسین ؑ کے پاس سے آرہا ہے۔

مورخین نے صرف اتنا لکھا ہے: امام ؑ نے انہیں ایک واقعہ یاد دلایا جو ان کی روح میں پیوست تھا، لیکن انہوں نے اسے بھلا دیا تھا اور اس سے غافل ہوگئے تھے ۔یعنی آپ نے ایک خوابیدہ شخص کو بیدار کردیا۔ جب بشارت دی جاتی ہے، تذکر ہوتا ہے، بیداری ہوتی ہے، تو یہ ایک افسردہ شخص کو طاقت اور توانائی کے ایک ایسے مجسمے میں تبدیل کردیتی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ زہیر کا چہرہ بدل چکا ہے اور اب وہ پہلے والے زہیر نہیں رہے، وہ اپنے خیموں میں آتے ہیں ۔ پہنچتے ہی حکم دیتے ہیں : میرا خیمہ ہٹا دو! پھر وصیت کرنا شروع کرتے ہیں: میرے اموال کا یہ ہوگا، میرے بیٹوں کا یہ، میری بیٹیوں کا یہ۔ اپنی بیوی کے بارے میں وصیت کرتے ہیں : فلاں شخص اسے اس کے باپ کے پاس لے جائے۔ انہوں نے اس طرح کی باتیں کیں کہ سب لوگ سمجھ گئے کہ اب زہیرنہیں رہیں گے ۔ لوگوں نے دیکھا کہ زہیر اس طرح سے الوداع کہہ رہے ہیں کہ جیسے اب وہ واپس نہیں آئیں گے۔ اس عارفہ خاتون نے اس بات کو سب سے بہتر طور پر محسوس کیا۔ وہ آئی اور زہیر کا دامن تھام کر رونے لگی۔ بولی: زہیر تم تو بلندمقامات کو پا رہے ہو، ایسے مقام جن کی تمنا کرنی چاہئے۔ میں سمجھ گئی، تم فرزندِ فاطمہ ؑ کے ساتھ شہید ہوجاؤ گے۔ حسین ؑ قیامت میں تمہارے شفیع ہوں گے۔ زہیر! ایسا کام نہ کرنا کہ قیامت میں میرے اور تمہارے درمیان جدائی پیدا ہوجائے، میں اس امید پر تمہارا دامن تھام رہی ہوں کہ قیامت میں مادرِ حسین ؑ میری بھی شفاعت کریں گی۔

اسی تذکر اور بیداری نے یہ حالت کردی کہ وہی زہیر جو امام حسین ؑ سے ملاقات سے گریز کر رہے تھے، وہ اصحابِ امام حسین میں اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے اور روزِ عاشور امام ؑ نے میمنہ زہیر کے سپرد کیا ۔ یہ عظیم شخص ایسا ابھر کر آیا کہ ہم جانتے ہیں جب روزِ عاشور امام ؑ تنہا رہ گئے اور ان کے اصحاب، دوستوں اور اہلِ بیت میں سے کوئی بھی باقی نہ رہ گیا، تو آپ میدان کے درمیان کھڑے ہوئے اور اپنے اصحاب کوصدا دی، جن افراد کا نام امام نے پہلے مرحلے پرلیا ان میں ایک زہیر بھی تھے: یااَصْحابَ الصَّفا وَ یا فُرْسانَ الْہَیْجاءِ یا مُسْلِمَ بْنَ عَقیلٍ یا ہانِیَ بْنَ عُرْوَۃَ وَ یازُہَیْرُ قوموا عَنْ نَوْمَتِکُمْ بَنِی الْکِرامِ وَادْفَعوا عَنْ حَرَمِ الرَّسولِ الطُّغاۃَ اللِّءَامَ۔ خلاصہ یہ کہ فرماتے ہیں: اے زہیر! عزیزم! کیوں سوتے ہو؟ اٹھو، اپنے رسول کے حرم کا دفاع کرو۔

ولاحول و لا قوَۃ اِلا باللّٰہ العلیّ العظیم۔ باسمک العظیم الاعظم الاجلّ الاکرم یا اللّٰہ۔۔۔

پروردگار! ہم سب کا انجام بخیر فرما۔ہم سب کے دلوں میں اپنے خوف اور خشیت کو قرار دے۔ہم سب کی نیتوں کو خالص فرما۔۔

۱۔سفینۃ البحار۔ ج۱۔ ص۵۸۶

۲۔سفینۃ البحار۔ ج۱۔ ص۵۸۶