سیرت کے معنی
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
سب سے پہلے ہم لفظ ”سیرت“ کے معنی بیان کریں گے، کیونکہ جب تک اس لفظ کے معنی بیان نہ کردیں، اس وقت تک ہم سیرتِ رسولؐ کی توضیح نہیں کرسکتے۔ ”سیرۃ“ عربی زبان میں ”سِیْر“ سے لیا گیا ہے۔(۱) ”سِیْر“ یعنی حرکت کرنا، جانا، چلنا۔ ”سیرۃ“ یعنی چلنے کا انداز۔ ”سیرہ“ فِعْلَۃ کے وزن پر ہے اورعربی زبان میں فِعْلَۃ نوعیت پر دلالت کرتا ہے۔ مثلاً جَلْسَہ، یعنی بیٹھنا اور جِلْسَہ یعنی بیٹھنے کا انداز۔ اور یہ ایک گہرا نکتہ ہے۔ سیر یعنی جانا، چلنا لیکن سیرہ، یعنی چلنے کا انداز اور طریقہ۔
اہم چیز نبی اکرم کا اندازِ عمل ہے۔ جن لوگوں نے سیرت لکھی ہے، انہوں نے پیغمبر کے عمل کو تحریر کیا ہے ۔ سیرت کے عنوان سے جو کتابیں ہمارے پاس موجودہیں، یہ سیر ہیں نہ کہ سیرت۔ مثلاً سیرۂ حلبیہ، سیر ہے، سیرت نہیں۔ اس کا نام تو سیرت ہے لیکن اس کی حقیقت سیر ہے۔ اس میں پیغمبرؐ کے عمل کو لکھا گیاہے، آپ کے اندازِ عمل کو نہیں، پیغمبرؐکے اسلوب کو نہیں ۔
اسلوب شناسی
اسلوب (style)اورطرز و انداز کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ مثلاً شعر کے باب میں ”رودکی“ کو بھی شاعر کہتے ہیں، سنائی کو بھی شاعر کہتے ہیں، مولاناروم کو بھی شاعر کہتے ہیں، فردوسی کو بھی شاعر کہتے ہیں، صائب کو بھی شاعر کہتے ہیں، حافظ کو بھی شاعر کہتے ہیں۔
ایک ایسا انسان جو شعر کے اسلوب سے واقف نہ ہواسکے لئے، ہر چیز شعر ہے۔ وہ کہتاہے: شعر تو شعر ہوتا ہے اور بس، شعروں میں کوئی فرق نہیں ہوا کرتا۔ لیکن ایک شعر شناس آدمی سمجھتا ہے کہ شعر کے مختلف اسلوب ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس ہندوستانی اندازکے شعر بھی ہیں، خراسانی انداز کے بھی، مثلاً عرفانی اسلوب وانداز کے شعر بھی ہوتے ہیں اور اسی طرح دوسرے اندازواسالیب کے شعر بھی۔ شعر شناسی میں جس چیز کو اہمیت حاصل ہے وہ اسکے اسلوب سے شناسائی ہے۔ ملک الشعراء بہار نے اسلوب شناسی پر ایک کتاب لکھی ہے۔ حتیٰ نثر میں بھی اسلوب شناسی ہوتی ہے۔ یہ صرف شعر کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ اسلوب شناسی، شعر شناسی اور نثر شناسی سے مختلف چیز ہے۔ نثر کو انسان اس وقت پہچان سکتا ہے جب وہ مختلف نثروں کے اسلوب کو سمجھتا ہو اور شعر کو اس وقت سمجھ سکتا ہے جب وہ شعر میں موجود مختلف اسالیب سے واقف ہو۔
چلتے ہیں ہنر(art) کی طرف۔ ایک ایسا انسان جو آرٹ کے بارے میں نہیں جانتا، اس کے لئے عمارت، عمارت ہے، کاشی کاری بھی کاشی کاری ہے، ، کتبہ نویسی، کتبہ نویسی ہے۔ لیکن آپ ذرا ہنر شناسوں کے پاس جائیے، آپ دیکھیں گے کہ دنیا میں شاید دسیوں اسلوب (style) موجود ہیں اور ہر صنعت اور ہر ہنر کاایک خاص اسلوب ہے۔ مثلاً ”ہنرِ اسلامی“نامی کتاب، جو ایک جرمن نے لکھی ہے، ابھی حال ہی میں اُس کا ترجمہ ہوا ہے، ایک اچھی کتاب ہے۔ ایک مرتبہ انہوں نے مجھے بھی دی تھی، تاکہ میں محافل میں اس کی پبلسٹی کروں، لیکن کیونکہ میرا انداز نہیں ہے کہ پبلسٹی کروں اس لئے میں نے انکار کردیا، اس وقت بھی }اچانک{ میری زبان پراس کا تذکرہ آگیا۔ بہرحال اسلامی آرٹ کے موضوع پرایک کتاب لکھی ہے، کہ اسلامی ہنر کا ایک مخصوص انداز ہے۔ اسلامی دنیا میں، اسلامی تمدن میں ایک نیا انداز وجود میں آیا جو اس کا اپنا مخصوص انداز ہے۔ البتہ ممکن ہے تمام دوسرے اسالیب کی طرح اس میں بھی دوسرے اسالیب سے کچھ لیا گیا ہو، لیکن خود اس کی اپنی بھی ایک مستقل حیثیت اور اپنابھی ایک مخصوص اسلوب ہے۔
اس سے آگے بڑھتے ہیں، آتے ہیں افکار کی طرف ۔ ایک ناواقف انسان کے لئے ارسطو ایک عالم، فلسفی اور مفکر ہے، ابو ریحان البیرونی ایک عالم اور مفکر ہے، بوعلی سینا ایک عالم اور مفکر ہے، افلاطون ایک عالم اور مفکر ہے، فرانسس بیکن ایک عالم اور مفکر ہے، اسٹوارٹ میل، ڈیکارٹ اور ہیگل بھی اسی طرح سے ہیں ۔ اب دوسری طرف ایک اور گروہ کی طرف چلتے ہیں توان کی نظر میں شیخ صدوق ؒ ایک عالم ہیں، شیخ کلینیؒ ایک عالم ہیں، اخوان الصفا بھی کچھ علما تھے، یہ سب کے سب شیعہ ہیں، خواجہ نصیر الدین طوسیؒ ایک عالم ہیں۔ لیکن ایک واقف اور مطلع شخص جانتا ہے کہ ان علما کی روش، اسلوب اورانداز کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک عالم کا اندازواسلوب استدلالی اور قیاسی ہے۔ یعنی وہ تمام مسائل میں ارسطوئی منطق کی پیروی کرتا ہے۔ اگر اسکے سامنے علمِ طب کورکھا جائے، تو وہ کوشش کرے گا کہ اُسے بھی ارسطوئی منطق کے تحت حاصل کرے۔ اگراُسے علمِ فقہ کودیا جائے، تو وہ اس میں بھی ارسطوئی منطق کے مطابق استدلال کرنا چاہے گا۔ اگر ادبیات اور صرف و نحو کو اس کے حوالے کیا جائے، تو وہ اس میں بھی ارسطوئی منطق کو استعمال کرے گا، اس کااسلوب ہی یہی یہ ہے۔
ایک شخص اور ہے جس کا اسلوب تجربی ہے، جیسے بہت سے جدید علما۔ کہتے ہیں کہ ابو ریحان البیرونی اور بوعلی سینا کے اسلوب میں فرق یہ ہے کہ بوعلی سینا کا اسلوب ارسطوئی منطق ہے لیکن ابو ریحان الریوونی کا اسلوب اکثر حسّی او رتجربی رہا ہے، باوجودیہ کہ یہ دونوں ہم عصر ہیں اور دونوں ہی نابغۂ روزگار ہیں۔ ایک ہے جس کا اسلوب عقلی ہے، جبکہ دوسرے کا انداز نقلی ہے۔ بعض ایسے ہیں جن کا اسلوب یکسر عقلی نہیں ہوتا، تمام مسائل میں وہ صرف منقولات پر اعتماد کرتے ہیں، منقولات کے سوا وہ کسی اور چیز پر اعتماد نہیں کرتے۔ مثلاً مرحوم علامہ مجلسیؒ اگر طب لکھنا چاہیں گے، تو اُسے بھی منقولات کی بنیاد پر لکھیں گے۔ اور کیونکہ ان کا تکیہ منقولات پر ہے اس لئے وہ منقولات کے صحیح (اور غیر صحیح)ہونے کو بھی زیادہ اہمیت نہیں دیتے، یا کم از کم اپنی کتابوں میں تو سب ہی جمع کردیں گے۔ وہ اگر ایامِ سعد و نحس کو بھی لکھیں گے، تو بھی منقولات سے استناد کریں گے۔
ایک کا اسلوب منقول ہے، ایک کا معقول، ایک کا اسلوب حسّی ہے، ایک کا استدلالی۔ ایک کا اسلوب آج کل کے لوگوں کی اصطلاح میں ڈیالکٹیکی ہے۔ یعنی وہ چیزوں کے حرکت میں ہونے کا قائل ہوتاہے۔ ایک اور ہے جس کا اسلوب اسٹیٹکس ہے۔ یعنی وہ دنیا کے نظام میں حرکت کو بالکل دخل انداز نہیں سمجھتا۔ کئی اسلوب وانداز پائے جاتے ہیں۔
اب آتے ہیں اعمال میں۔ اعمال کے بھی مختلف انداز ہیں۔ سیرت شناسی، یعنی اسلوب وانداز شناسی۔ اولاً ایک کلیت موجودہے۔ دنیا کے سلاطین اپنے اندر پائے جانے والے بعض اختلافات کے ساتھ ساتھ، کلی طور پر ایک مخصوص انداز، مخصوص سیرت اور ایک مخصوص روش رکھتے ہیں۔ فلسفیوں کا ایک مخصوص انداز ہوتا ہے۔ ریاضت کرنے والوں کا ایک مخصوص انداز ہوتا ہے۔ انبیا ؑ کا بھی بطورِ کلی ایک مخصوص انداز ہے اور اگر ہر ایک کو جداگانہ طور پر دیکھیں (تو وہ ایک مخصوص اندازکا حامل نظر آئے گا، مثلاً) پیغمبر اکرؐم کا اپنا ایک مخصوص انداز ہے۔
یہاں ہم ایک اور نکتے کا بیان ضروری سمجھتے ہیں: یہ جوہم نے عرض کیا کہ ہنر میں مختلف اسلوب پائے جاتے ہیں۔ شاعری میں مختلف اسلوب ہیں، تفکر میں مختلف اسلوب ہیں، عمل میں مختلف اسلوب ہیں، یہ ان لوگوں کے لئے ہیں جن کا خود کوئی خاص اسلوب ہوتا ہے ۔ لوگوں کی اکثریت کابالکل کوئی اسلوب نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگ جو شعر کہتے ہیں، ان کا کوئی اسلوب نہیں ہوتا، انہیں اسلوب کا پتا ہی نہیں ہوتا۔ یہ بہت سے آرٹسٹ (شایدیہt cubis ایسے ہی ہوں) بنیادی طور پر کوئی اسلوب انہیں سمجھ ہی نہیں آتا۔ بہت سے لوگ اپنے تفکر میں کسی خاص اسلوب وانداز اور منطق کے مالک ہی نہیں ہوتے۔ کبھی نقل پر تکیہ کرتے ہیں، کبھی عقل پر بھروسہ کرتے ہیں اور کبھی حسّی ہوجاتے ہیں، تو کبھی عقلی بن جاتے ہیں۔ یہ لوگ منطق سے دور ہیں۔ ہم منطق سے دور رہنے والوں کی بات نہیں کرتے۔ عمل }کے میدان {میں بھی لوگوں کی غالب اکثریت کا کوئی اسلوب نہیں ہوتا۔ اگر ہم سے کہا جائے کہ (عمل میں) اپنا اسلوب بیان کرو، اپنی سیرت بیان کرو، اپنی روش بیان کرو، تم زندگی کی مشکلات کے حل کے لئے (کس روش پر عمل کرتے ہو؟ ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا)
ہرانسان زندگی میں اپنے لئے کوئی مقصد رکھتا ہے۔اب چاہے اس کامقصد کچھ بھی ہو۔ ایک انسان کوئی اعلیٰ مقصد رکھتا ہے، ایک کا مقصد پست ہوتا ہے، ایک کا مقصد خدا ہوتا ہے، ایک کا مقصددنیا ہوتی ہے ۔۔۔۔مختصر یہ کہ انسانوں کے مقصد ہوتے ہیں۔ بعض لوگ اپنے مقصد کے لئے کوئی اسلوب نہیں رکھتے، انہوں نے کسی مخصوص روش کا انتخاب نہیں کیا ہوتا، روش ان کے پلے ہی نہیں پڑتی۔ لیکن لوگوں کی ایک قلیل تعداد ایسی ہے کہ وہ جس راستے پر چلتے ہیں، ان کا ایک مخصوص اسلوب اور روش ہوتی ہے۔ ایسے لوگ بہت کم ہیں، ورنہ اکثر لوگ منطق سے دورہی رہتے ہیں، طرز واسلوب سے فاصلے ہی پر ہوتے ہیں، روش اور طریقۂ عمل سے پَرے ہی ہوتے ہیں۔ بقولِ شخصے ہرج و مرج (اُن کے اعمال پر حکم فرما ہے اوروہ) ہَمَجٌ رَعاعٌ ہیں۔
سیرتِ پیغمبرؐ، یعنی اسلوب واندازِپیغمبرؐ، وہ طریق، سلیقہ اور اسلوب جس سے نبی اکرمؐ اپنے عمل اور اپنی روش میں اپنے مقاصد کے لئے استفادہ کرتے تھے۔ ہماری گفتگو نبی کریمؐ کے مقاصد کے بارے میں نہیں ہے۔ پیغمبرؐکے مقاصد فی الحال ہمارے لئے واضح ہیں۔ ہماری گفتگو پیغمبرؐ کے انداز واسلوب کے بارے میں ہے۔ اُس روش کے بارے میں ہے، جسے پیغمبر اکرمؐ اپنے مقصد اور ہدف کے لئے استعمال کرتے تھے۔
مثلاً پیغمبر تبلیغ کیا کرتے تھے۔ پیغمبر کی تبلیغی روش کیا تھی؟ پیغمبر کا اندازِ تبلیغ کیا تھا؟
ّ پیغمبر اکرؐم مبلغ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے کے لئے ایک سیاسی رہنما بھی تھے۔ آپؐ نے مدینہ تشریف لاتے ہی ایک معاشرہ تشکیل دیا تھا، حکومت تشکیل دی تھی، آپؐ خود اُس معاشرے کے رہنما تھے۔ پیغمبرؐنے معاشرے کی قیادت اوراسکی تنظیم کے لئے کیا روش اختیار کی تھی؟
اسی کے ساتھ ساتھ پیغمبرؐ قاضی(judge) بھی تھے اور لوگوں کے درمیان فیصلے کیا کرتے تھے۔آپؐ کی قضاوت کا انداز کیا تھا؟
تمام دوسرے انسانوں کی طرح نبی کریمؐ کی بھی ایک گھریلو زندگی (family life) تھی، آپ کی متعدد بیویاں تھیں، بچے تھے۔بیوی کے ساتھ سلوک میں آپ کی روش کیا تھی؟ اپنے اصحاب، ساتھیوں اوراصطلاحاً مریدوں کے ساتھ آپ کا اندازِ معاشرت کیا تھا؟
پیغمبرؐ کے جانی دشمن بھی تھے۔اپنے دشمنوں کے ساتھ پیغمبر کا طرزِ عمل کیا تھا؟
اسی طرح مختلف معاملات میں دوسرے دسیوں انداز، اسلوب اور طرزہائے عمل جنہیں واضح ہونا چاہئیں۔
۱۔ سیرت کا لفظ مسلمانوں نے شاید پہلی یا دوسری صدی ہجری میں استعمال کیا ہے ۔ گوکہ ہمارے مورخین نے عملی طور پر اپنی ذمے داری اچھی طرح سے ادا نہیں کی، لیکن لفظ بہت اعلیٰ منتخب کیا ہے۔ شاید قدیم ترین سیرت ابن اسحاق نے لکھی تھی جسے بعد میں ابن ہشام نے ایک کتاب کی شکل دی۔ کہتے ہیں کہ ابن اسحاق شیعہ تھا اوراس کا تعلق تقریباً دوسری صدی ہجری کے دوسرے نصف سے ہے۔