برہان اور شعر
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
منطقِ نظری میں ہمارے پاس برہان بھی ہیں اور شعر بھی ۔ برہان اُن دلائل کی مانند ہوتے ہیں جنہیں ریاضیات میں کسی نکتے کے لئے قائم کیا جاتا ہے۔ ایک طالبِ علم جو ریاضی پڑھ رہا ہے، اور مثلاً اسکے لئے مثلث کے احکام بیان کئے جارہے ہیں، تو جب کہتے ہیں کہ ایک مثلث کے زاویوں کا مجموعہ ۱۸۰ درجے کے برابر ہے اور اس کا ۱۸۱ یا ۱۷۹ درجے کے مساوی ہونا محال ہے، تو اس کے لئے برہان کاذکرکرتے ہیں۔ جب برہان پیش کرتے ہیں، تو وہ دیکھتا ہے کہ یہ بالکل درست ہے۔
کیا ریاضی کے استاد کے پاس یہ طاقت ہے کہ اسے اختیار حاصل ہو کہ اگر ایک مرتبہ اس کا دل چاہے کہ اس بات پر برہان قائم کرے کہ مثلث کے زاویوں کا مجموعہ دو زاویۂ قائمہ یعنی ۱۸۰ درجے کے برابر ہے، تو وہ اس پر برہان قائم کردے اور ایک مرتبہ ایک اور برہان قائم کرے کہ مثلث کے زاویوں کا مجموعہ مثلاً ۱۲۰ درجے کے برابر ہوتا ہے۔
یہ اس کے اختیار میں نہیں ہے۔
عقلی نظری مبادی انسان کے اختیار میں نہیں ہیں۔ انسان کو ان کا تابع ہونا چاہئے۔ اگر آئن اسٹائن کوبھی دنیا میں لے آئیں اوروہ اس قسم کا برہان قائم کرناچاہے، تو ایک عام طالبِ علم بھی اسے شکست دے سکتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ وہ غلط بات کر رہا ہے، اور غلط بات کو عقل قبول نہیں کرتی۔ جس چیز کو عقل قبول نہیں کرتی، دنیا کے طاقتور ترین افراد بھی اس کے برخلاف بات نہیں کرسکتے، کیونکہ برہان کامعاملہ ہے۔
اب چلتے ہیں شاعری کی طرف۔ شعر، یعنی ایک ایسی چیز جو موم کی طرح انسان کے اختیار میں ہے۔انسان تشبیہ، استعارے اور تخیّل کے ذریعے اپنی مرضی کے مطابق ہر چیز کے لئے ایک چیز بنا سکتا ہے ۔ یہ شعر ہے، کوئی منطق و برہان تو نہیں ہے۔ مثلاً کسی شاعر سے کہیں کہ فلاں چیزکی تعریف کرو، وہ تعریف کرتا ہے۔ اسی سے کہیں کہ مذمت کرو، تو مذمت کرتاہے۔ فردوسی ایک دِن سلطان محمودسے خوش ہوتاہے، تو اس کی تعریف کرتاہے، اور تعریف بھی کیسی:
جہاندار محمود شاہِ بزرگ
بہ آبشخور آرد ہمی میش و گرگ(۱)
ایک دن اس سے ناخوش اور رنجیدہ ہوتاہے، تو کہتا ہے:
اگر مادرِ شاہ بانو بُدی
مرا سیم و زر تا بہ زانو بُدی
ہمانا کہ شہ نانوا زادہ است
بہای تہ نان بہ من دادہ است(۲)
ایک شاعر سے کہیں کہ سفر کی تعریف کرو، تو کہے گا ہاں سفر اچھی چیز ہے، ایک جگہ رہناکیا معنی رکھتا ہے؟
درخت اگر متحرک بُدی زجای بہ جای
نہ جور ارّہ کشیدی و نہ جفای تبر(۳)
یہ درخت جسے آپ دیکھتے ہیں کہ لوگ آکر اس پرآری اور کلہاڑی چلاتے ہیں، یہ اسلئے ہے کہ یہ ایک جگہ پڑا ہوا ہے۔ اگر مسافر ہوتا تو ایسا نہ ہوتا۔آپ اسی سے کہیں کہ اس کے برعکس کہو، اس بات کی تعریف میں شعر کہو کہ بہتر ہے کہ انسان اپنی جگہ پر رہے، متانت کے ساتھ جما رہے، ادھر اُدھر نہ دوڑے، تو وہ کہے گا ہاں، اس پہاڑ میں جو ایسی عظمت دکھائی دیتی ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنی جگہ پر ہے، ، لیکن یہ ہوا جس کی تم دیکھتے ہو کہ کوئی بھی پروا نہیں کرتا، اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ ہمیشہ حرکت میں رہتی ہے۔ اس قسم کے شعر کہنا، یعنی تخیل کے ذریعے ایک چیز کو دوسری چیز سے تشبیہ دینا۔ غلط فہمی نہ ہوجائے: ہم اس شعر کی بات کر رہے ہیں، جو تخیل کے معنی میں ہے۔ہم ہر نظم کو شعر نہیں کہتے، ہم منظوم کلام کی بات نہیں کر رہے، اس کی بات کر رہے ہیں جو منطق کی اصطلاح میں شعر ہے۔ یعنی مسائل کا تخیل سے موازنہ کرنا۔ تخیل کا کوئی میزان اور معیار نہیں ہوتا۔
ایک شخص ایک بادشاہ کا دشمن تھا، اور مدتوں سے روپوشی کی زندگی بسر کررہا تھا، یہاں تک کہ ایک دن وہ پکڑا گیا۔ بادشاہ نے اسے سولی پرچڑھا دیا اور اس کا بدن کافی عرصے تک سولی پرلٹکا رہا۔ ایک شاعر جو اس پھانسی پانے والے شخص کا مرید ہو گیا تھا، اُس نے اس کی مدح میں ایک قصیدہ کہا اور لوگوں کے درمیان منتشر کردیا۔ کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ یہ قصیدہ کس نے کہا ہے۔ البتہ بعد میں معلوم ہوگیا۔ وہ ایک شعر میں کہتا ہے:
عُلُوٌّ فِی الْحَیاۃِ وَ فِی الْمَماتِ
لَعَمْری ذاکَ اِحْدی الْمُحْکَماتِ
اس نے کہا: واہ واہ! وہ زندگی میں بھی بلند مقام پررہا اور مرکر بھی بلندہے۔
جس نے اسے سولی پر چڑھایا تھا اُس نے کہا: میرا دل چاہتا ہے کہ کوئی مجھے سولی پرچڑھادیتا اور پھر میری تعریف میں یہ شعر کہتا۔
بالآخر شعر ہے، ہر طرح سے کہا جاسکتا ہے۔
لوگوں کی منطقِ عملی کا بھی یہی حال ہے۔ بعض اپنی منطقِ عملی میں برہان کی طرح ہیں۔ یعنی مضبوط اور مستحکم۔ وہ جن اصول ومبانی کی پیروی کرتے ہیں، کوئی طاقت انہیں اُن سے نہیں ہٹا سکتی۔ محال ہے کہ قوت، لالچ، اجتماعی حالات، اقتصادی صورتحال، طبقاتی وابستگی} انہیں اُن کے اصولوں سے پیچھے ہٹا سکے۔{
برہانی اصولوں کی مانند محکم ومضبوط اصول، ریاضی کے اصولوں کی مانند جنہیں تبدیل کرنا انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔من مانے اصول نہیں ہیں، ان کا تعلق جذبات واحساسات سے نہیں ہوتا۔} یہ لوگ{ ایسے مضبوط اصولوں کے مالک ہوتے ہیں۔ پیغمبرؐ، یعنی وہ ہستی جو ایسے اصولوں کی مالک ہے، علی ؑ، یعنی وہ شخص جو ایسے اصولوں سے وابستہ ہے، حسین، ؑ یعنی وہ جو ایسے اصولوں کا مالک ہے۔ بلکہ ان کے پیروکار: سلمان، یعنی وہ شخص جو ایسے اصول رکھتاہے، ابوذر، عمار اور مقداد یعنی وہ لوگ جو ایسے اصولوں کے مالک ہیں، مرتضیٰ انصاری، یعنی جو ایسے اصولوں کا مالک ہے۔
لیکن بعض لوگوں کی زندگی کا اصول ایک شاعر کے فکری اصولوں کی طرح ہوتا ہے۔ اس کی مٹھی گرم کر دیجئے، اسکے اصول تبدیل ہوجائیں گے۔ اس سے کوئی وعدہ کرلیجئے، اسکی سوچ تبدیل ہوجائے گی۔کیو نکہ اس کی فکر کی کوئی بنیاد اور اصول نہیں ہوتا۔
پس ایک اہم بات جسے ہمیں سیرتِ پیغمبر ؐکے مقدمے میں زیرِ بحث لانا چاہئے، یہ ہے کہ کیا مکتبِ اسلام ایک ایسا مکتب ہے بھی یا نہیں کہ (جس کے مطابق) انسان ایسی فطرت، سرشت اور ساخت کا مالک ہے کہ جس طرح منطقِ نظری میں وہ آہنی اور ناقابلِ تغیر منطق کی پیروی کرسکتا ہے اسی طرح منطقِ عملی میں بھی اس درجے تک پہنچ سکتا ہے کہ اسے کوئی قدرت متزلزل نہیں کرسکتی:
کَالْجَبَلِ الرّاسِخِ لَا تُحَرِّکُہُ الْعَواصِفُ۔
پہاڑ کی طرح راسخ کہ جسے آندھیاں ہلا بھی نہیں سکتیں۔
یہ جو ایمان کے باب میں کہا گیا ہے کہ مومن پہاڑ کی مانند ہوتا، جسے کوئی آ ندھی اپنی جگہ سے ہلا نے کی طاقت نہیں رکھتی (یہ اسی معنی میں ہے)۔ یہ آندھیاں کیا ہیں؟ ایک یہی ہے۔ ایک شخص کو غربت اور محرومیت، تو دوسرے کو رفاہ وآسائش اپنی جگہ سے ہلادیتی ہے۔
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اﷲَ عَلٰی حَرْفٍ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُ نِاطْمَاَنَّ بِہٖ وَ اِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ نِانْقَلَبَ عَلٰی وَجْہِہٖ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃَ۔
اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی عبادت ایک ہی رخ پر اور مشروط طریقے سے کرتے ہیں کہ اگر ان تک خیر پہنچتا ہے تو مطمئن ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی مصیبت پڑ گئی تو دین سے پلٹ جاتے ہیں، یہ لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں خسارے میں ہیں۔ سورۂ حج ۲۲۔آیت۱۱
قرآنِ کریم کہتا ہے کہ بعض لوگ ایمان اور حق کے راستے پر اُس وقت تک چلتے ہیں جب تک اس راستے سے اُن کے مفادات بھی پورے ہو رہے ہوں، جوں ہی انہیں نقصان پہنچتا ہے، تو دین سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ یہ ایمان نہیں ہے۔
۱۔عظیم بادشاہ محمود (غزنوی) ایسا (عادل) ہے جو بھیڑ اور بھیڑیئے کو ایک گھاٹ پر پانی پلاتا ہے۔
۲۔اگر بادشاہ کی ماں کوئی عظیم عورت ہوتی، توآج میں گھٹنوں تک سونے چاندی میں ڈوبا ہوا ہوتا۔ لیکن چونکہ وہ نانبائی کی اولاد ہے اس لئے بچی ہوئی روٹی کی قیمت مجھے دے دی ہے۔
۳۔اگر درخت ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کر سکتا، توآری اور کلہاڑی کی تکلیف سے بچ جاتا۔