سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ

پانچویں نشست - دو سوالوں کا جواب

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الحمد للّٰہ رب العالمین بارئ الخلائق اجمعین۔والصلٰوۃ والسلام علیٰ عبداللّٰہ ورسولہ و حبیبہ و صفیہ و حافظ سرّہ ومبلّغ رسالاتہ سیّدناونبیّنا ومولاناابی القاسم محمدوآلہ الطیّبین الطاہرین المعصومین۔

اعوذباللّٰہ من الشیطان الرجیم
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اﷲَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اﷲَ کَثِیْرًا (سورۂ احزاب۳۳۔آیت ۲۱)

 

حضرت داؤد کا واقعہ اور ذرائع کا استعمال

حق کی طرف دعوت اور اسکی جانب رہنمائی کے لئے باطل سے استفادہ نہیں کرنا چاہئے۔ اس بارے میں ذرائع کے استعمال کی بابت سوال کیا گیا ہے کہ: پھرخدا کے پیغمبرحضرت داؤدعلیہ السلام کا واقعہ جس کا ذکر قرآنِ مجید میں آیا ہے، اس کا مسئلہ کیا ہے؟

ممکن ہے بعض لوگ اس واقعے سے واقف نہ ہوں۔ یہ واقعہ قرآن میں صرف اتنا بیان ہوا ہے کہ، ارشاد ہوتا ہے "ہمارے بندے داؤد کا واقعہ یاد کرو کہ جب وہ محراب میں تھے، کہ اچانک محراب کے اوپر سے کچھ لوگ (ایک دوسرے کے مخالف فریق)آگئے"۔ بظاہر یہ دو سے زیادہ افراد تھے، اگرچہ ایک مقام پر ایک شخص کی زبان سے کہتا ہے: اِنَّ ہٰذَآ اَخِیْ۔ لیکن دوسری تعبیریں جمع کی تعبیریں ہیں، گویا وہ دو سے زیادہ افراد تھے۔

قرآن نے اس بات کویوں بیان کیا ہے کہ یہ دو افراد حضرت داؤد کے پاس آئے (آپ جانتے ہیں کہ حضرت داؤدعلیہ السلام اللہ کے نبی بھی تھے اور مَلِک اور بادشاہ، یعنی اپنی قوم میں حکمراں بھی تھے) ان دو میں سے ایک فرد نے دوسرے کی شکایت کی (یا ایک شخص نے ایک پورے گروہ کی نمائندگی میں دوسرے کی شکایت کی) کہنے لگا: ”یہ میرا بھائی ہے (اب یا واقعی سگابھائی تھا یا دینی بھائی) اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے، اسکے باوجود یہ میرے پاس آیا ہے اور اس ایک دنبی کو بھی زبردستی مجھ سے لے لینا چاہتا ہے۔“فَقَالَ اَکْفِلْنِیْہَا وَ عَزَّنِیْ فِی الْخِطَابِ۔ (۱)

قرآنِ مجید صرف اتنا ہی نقل کرتا ہے کہ شکایت کرنے والے نے یہ کہا، دوسرے نے اپنا دفاع کیا یا نہیں، اس کے بارے میں بیان نہیں کرتا۔اسکے بعد فرماتا ہے کہ حضرت داؤد ؑ نے کہا: لَقَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِکَ اِلٰی نِعَاجِہٖ وَ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْخُلَطَآءِ لَیَبْغِیْ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْض۔ اُس نے اپنے اِس عمل سے تم پر ظلم کیا ہے۔ ہاں بہت سے لوگ، ایک دوسرے کے شریک، ایسے لوگ جو ایک دوسرے کے نزدیک ہوتے ہیں اور اُن میں باہمی اختلاف ہوتا ہے، اُن میں سے بعض ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں۔ پھر قرآنِ مجید کہتا ہے کہ حضرت داؤد ظَنَّ۔ (جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہاں عَلِمَ کے معنی میں ہے) جانتے تھے کہ یہ ہماری جانب سے امتحان تھا: وَ ظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰہُ۔ (۲) کہ ہم نے ان کا امتحان لیا تھا، لہٰذا وہ تضرع و زاری اور توبہ و استغفار کرنے لگے اور خدا نے بھی اُن کی توبہ کو قبول کرلیا۔ قرآنِ مجید نے اس سے زیادہ بیان نہیں کیا ہے۔

یہاں پر دو سوال سامنے آتے ہیں:ایک یہ کہ جو لوگ حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس آئے تھے، وہ کون لوگ تھے؟ کیا واقعی انسان تھے اور کیا یہ واقعہ بھی سچا واقعہ تھا؟ کیا وہ واقعی انسان تھے اور ان میں سے ایک کے پاس کئی دنبیاں تھیں اور دوسرے کے پاس ایک دنبی تھی، اور جس کے پاس زیادہ تھیں وہ چاہتا تھا کہ اس دوسرے کی ایک دنبی کو بھی ہتھیا لے، جس پر اُس نے شکایت کی اور حضرت داؤد ؑ نے فیصلہ کیا؟ یا نہیں، یہ لوگ انسان تھے ہی نہیں، بلکہ فرشتے تھے جنہیں خدا نے حضرت داؤد ؑ کا امتحان لینے کے لئے بھیجا تھا، اورکیونکہ وہ فرشتے تھے، اس لئے اس واقعے میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یعنی سچ مچ کوئی دنبی نہیں تھی، نہ دو بھائی تھے، نہ کوئی تجاوز اور زیادتی ہوئی تھی، بلکہ یہ خدا کے حکم سے آئے تھے، اورانہوں نے حضرت داؤد ؑ کا امتحان لینے کے لئے، اور ان کے الفاظ میں حضرت داؤد کو خبردار کرنے کے لئے، یہ اسٹیج تیار کیا تھااور حضرت داؤد ؑ بھی اس جانب متوجہ ہوگئے تھے اور استغفار کرنا شروع کردیاتھا۔

اگر یہ فرشتے تھے، تو حضرت داؤد ؑ کی بیداری کا باعث بننے کے لئے کیوں آئے تھے؟

یہاں پر اہلِ سنت سے خاص روایات موجود ہیں اور مجھے نہیں معلوم کہ شیعوں سے بھی روایات ہیں یا نہیں۔ لیکن تفسیر المیزان میں مجمع البیان سے نقل کیا گیاہے ( ان روایات کا خلاصہ مجمع البیان نے ذکر کیا ہے اور ان کی تکذیب کی ہے اور انہیں مسترد کیا ہے)۔ بہرصورت اگرروایت ضعیف ہے، تواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ شیعوں سے ہے یا اہلِ سنت سے۔

بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ واقعہ اس طرح سے تھا کہ حضرت داؤد ؑ کی متعدد بیویاں تھیں، اس کے باوجود ایک موقع پر (وہ ایک عورت پر فریفتہ ہوگئے)۔ قصہ یہ تھا کہ حضرت داؤد ؑ محراب میں مصروفِ عبادت تھے کہ شیطان پہلے ایک خوبصورت پرندے کی صورت میں ظاہر ہوا، آکر اُس سوراخ پربیٹھ گیا جو اس محراب میں بنا ہوا تھا۔ یہ پرندہ اتنا خوب صورت تھا کہ حضرت داؤد ؑ نے اپنی نماز توڑ دی اور اس کو پکڑنے کے لئے دوڑے۔وہ پرندہ اڑ کر کچھ دور چلا گیا، آپ اس کی طرف اور بڑھے، تو وہ اُڑ کر چھت پر چلا گیا، حضرت داؤد ؑ بھی دوڑ کر اپنے دار السلطنت اور دار العمارہ کی چھت پر چلے گئے۔ اتفاق سے (پڑوس کے مکان میں) ”اوریا“ نامی ایک سپاہی کی بیوی غسل کر رہی تھی۔ وہ بہت خوبصورت اور حسین و جمیل عورت تھی۔ وہ حضرت داؤد کو بھا گئی ۔ آپ نے معلومات کیں کہ یہ کون ہے؟ }آپ کو پتا چلا کہ {یہ فلاں سپاہی کی بیوی ہے۔ }پوچھا {وہ سپاہی کہاں ہے؟ }بتایا گیا{ میدانِ جنگ میں ہے۔}انہوں نے{ اپنے سپہ سالار کو خط لکھا کہ جس طرح بھی ہو، اس سپاہی کو کسی ایسی جگہ بھیج دو جہاں سے وہ زندہ واپس نہ آسکے اور مارا جائے۔ سپہ سالار نے اس سپاہی کو اگلے مورچوں پرتعینات کردیا اور وہ وہاں مارا گیا۔ جب وہ مارا گیا تو اس عورت کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہ رہی۔ جب اُس کی عدت پوری ہوگئی، تو حضرت داؤد ؑ نے اُس سے شادی کرلی۔ فرشتوں نے یہ واقعہ اس لئے اسٹیج کیا تھا، تا کہ انہیں بتائیں کہ آپ کی مثال اس آدمی کی سی ہے جس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اوراس کے دوست کے پاس صرف ایک دنبی ہے۔ باوجود یہ کہ اُس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں، پھر بھی وہ دوسرے کی ایک دنبی کے حصول کی خواہش رکھتا ہے۔ اب حضرت داؤد کو احساس ہوا کہ} نعوذ باﷲ{وہ گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں۔لہٰذا انہوں نے توبہ کی اور خدا نے ان کی توبہ کو قبول کیا۔

 

اس واقعے کی حقیقت

عیونِ اخبار الرضا میں، اُن مباحث میں جو امام رضا علیہ السلام نے مختلف اقوام اور ادیان کے لوگوں، یعنی مختلف غیر اسلامی اور بعض اسلامی مذاہب کے نمائندوں سے کی ہیں، آپ نے جو مباحث یہودیوں، نصرانیوں، زرتشتیوں، ستارہ پرستوں اور بعض علمائے اہلِ سنت کے ساتھ کی ہیں، اُن میں روایت ہوئی ہے کہ ایک مجلس جسے مامون نے ترتیب دیا تھا، اورجس میں امام ؑ نے مباحثہ کیا تھا، اُس میں امام رضا علیہ السلام نے اہلِ سنت کے ایک امام سے سوال کیا کہ آپ لوگ حضرت داؤد ؑ کے واقعے کے بارے میں کیا کہتے ہیں، جس کا ذکر اجمالی طور پر قرآن میں کیا گیا ہے؟ اُس نے یہی باتیں کہیں} جنہیں ہم نے اوپر کی سطور میں بیان کیا ہے{۔ امام ؑ نے فرمایا: سبحان اللہ! آپ لوگ کس طرح اللہ کے نبی کے بارے میں ایسی نسبت دے دیتے ہیں؟ آخر یہ کیسا پیغمبر ہے کہ نماز میں مشغول ہو اور اُس کی نظرایک خوبصورت کبوتر پر پڑ جائے، تو وہ ایسا بے خود ہوجاتا ہے کہ اپنی نماز توڑڈالتا ہے۔ یہ پہلا گناہ ہے، جو فسق ہے۔ پھر نماز توڑنے کے بعد بچوں کی طرح پرندے کے پیچھے دوڑ پڑتاہے، حالانکہ وہ پیغمبر بھی ہے اور بادشاہ بھی ہے، گویا وہاں کوئی بھی نہ تھا جس سے یہ کہے کہ تم یہ پرندہ میرے لئے پکڑ لاؤ۔ وہ چھت پرچڑھ جاتا ہے، اور وہاں نوعِ انسانی کا ایک اور کبوتر اس کے سامنے آجاتا ہے، اس کی نظر ایک خوبصورت عورت پرپڑجاتی ہے، یہ ہرجائی دل جواب تک اُس کبوترکے پیچھے تھا، اب اُس کبوتر کو چھوڑکر ایک جان سے نہیں بلکہ سو جان سے اس عورت کا عاشق ہوجاتاہے۔ یہ دوسرا گناہ ہے۔ پھر تحقیق شروع کردیتاہے کہ یہ عورت شادی شدہ ہے یا نہیں۔ جب اسے بتاتے ہیں کہ وہ شادی شدہ عورت ہے، تو وہ پوچھتا ہے کہ کس کی بیوی ہے؟ وہ ایک سرفروش سپاہی کی بیوی ہوتی ہے، جو میدانِ جنگ میں جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے ہے۔ وہ مکاری او رعیاری سے کام لیتا ہے تاکہ وہ سپاہی مارا جائے، تاکہ وہ اس کی بیوی کے ساتھ شادی کرسکے۔ لہٰذا فسق ہے، فجور ہے، قتل ہے، نماز توڑنا ہے، شادی شدہ عورت سے عشق ہے۔آخر یہ کیسا پیغمبر ہے؟

اصل بات کیاہے؟

امام ؑ سے سوال کیا گیا کہ اصل بات کیا ہے؟

آپ نے فرمایا: قرآن نے تو سرے سے ان باتوں کا ذکر ہی نہیں کیا ہے۔ یہ کیسی باتیں ہیں جو تم نے خود گھڑ لی ہیں؟ !

اصل واقعہ یہ ہے: ایک دن حضرت داؤد ؑ (جن کی حکمتیں اور فیصلے ضرب المثل ہیں) کے دل میں معمولی سی خود پسندی پیدا ہوئی کہ داؤد ؑ کے فیصلوں سے بڑھ کر فیصلے کسی کے نہیں ہوتے، میں لوگوں کے درمیان ایسا درست فیصلہ کرتا ہوں کہ اس میں ذرّہ برابر بھی غلطی نہیں ہوتی۔ حضرت یونس، ؑ حضرت آدم ؑ اور دوسرے انبیا ؑ کے واقعات کی طرح۔ ذرّہ برابرخود پسندی اور غرور اس بات کا سبب بن جاتا ہے کہ خدابندے پر سے اپنی عنایت اٹھا لیتا ہے، تاکہ بندہ اپنی عاجزی پر قائم رہے۔ ہم اپنی دعاؤں میں پڑھتے ہیں: وَ لَاتَکِلْنِیْ اِلیٰ نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ اَبَداً۔ انسان کسی بھی مقام پر ہو، اسے ہمیشہ خدا سے عرض کرنا چاہئے:بارِ الٰہا! مجھے پلک جھپکنے کے عرصے کے لئے بھی اپنے آپ پر نہ چھوڑنا۔

امِ سلمہ کہتی ہیں: ایک مرتبہ میں نصف شب کے وقت بیدار ہوئی، دیکھا کہ پیغمبر اکرمؐ بستر پر نہیں ہیں۔ اچانک میں نے دیکھا کہ آپؐ ایک کونے میں مشغولِ عبادت ہیں۔ میں نے آپ کی باتیں سنیں، تو دیکھا کہ آپ فرما رہے تھے: اِلٰھِیْ لَاتُشْمِتْ بِیْ عَدُوِّیْ وَ لَاتَرُدَّنِیْ اِلیٰ کُلِّ سُوءٍ اسْتَنْقَذْتَنِیْ مِنْہُ۔ وَ لَا تَکِلْنِیْ اِلیٰ نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ اَبَداً۔(۳)بارِ الٰہا! مجھے جن برائیوں سے نجات دی ہے، ان میں دوبارہ نہ پلٹادینا، بارِ الٰہا! میرے دشمنوں کو شاد نہ فرمانا۔۔بارِ الٰہا! مجھے ایک لمحے کے لئے بھی، پلک جھپکنے کے عرصے کے لئے بھی اپنے آپ پر نہ چھوڑنا، یعنی مجھ سے اپنے لطف و عنایت کو دور نہ کرنا۔ (یہ باتیں پیغمبرآخر الزماں کہہ رہے ہیں) یہاں پہنچنے پر امِ سلمہؓ نے بے اختیار زار و قطار رونا شروع کردیا۔جب پیغمبرکی دعا ختم ہوگئی تو آپ نے پوچھا: امِ سلمہؓ! کیوں رو رہی ہو؟ عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! جب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ بارِ الٰہا!مجھے پلک جھپکنے کے عرصے کے لئے بھی اپنے آپ پر نہ چھوڑنا، توافسوس ہو ہمارے حال پر۔ آنحضرتؐ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں تو تکلفاً کہہ رہا تھا (نعوذ باللہ) تمہیں سکھانے کے لئے کہہ رہا تھا۔ فرمایا: ہاں ایسا ہی ہے، میرے بھائی یونس ؑ کو ایک لمحے کے لئے خدا نے اُس کے اپنے اوپر چھوڑ دیا تھا، تو اُسے وہ سب کچھ برداشت کرنا پڑا۔

 

خدا اپنی عنایت کو کیسے اٹھا لیتاہے؟

اللہ کے کسی نبی ؑ کے دل میں معمولی سی بھی خودپسندی آجائے، تو اس پر سے خدا کی عنایت اٹھ جاتی ہے اور وہ اسی وقت بلندی سے گر جاتا ہے۔

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: اِس عظیم پیغمبر ؑ کے پاکیزہ دل میں یہ خودپسندی پیدا ہوئی کہ کیااس دنیا میں مجھ سے بہتر بھی کوئی قاضی ہے؟ حضرت داؤد ؑ کے دل میں ”میں“ کا تصور پیدا ہوا۔ اے داؤد ؑ ! اب تمہارے ذہن میں ”میں“ کی فکر ”میں“ کا تصور نہیں آنا چاہئے۔لہٰذا خدا نے انہیں اس امتحان میں ڈال دیا۔جب حضرت داؤد ؑ پرسے خدا کی عنایت اٹھ گئی، تو انہوں نے ایک فیصلہ کرتے ہوئے جلدبازی سے کام لیا۔ یعنی وہ یہ بھول گئے کہ جب مدعی اپنا دعویٰ پیش کر رہا ہو، تو قاضی کو فرضی طور پر ہی سہی ایک لفظ بھی نہیں بولنا چاہئے۔ ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے: یہ صاحب جنہیں آپ دیکھ رہے ہیں، انہوں نے میرا مال ہتھیا لیا ہے، اتنے مال و دولت کے باوجود ( جبکہ ان کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے) یہ میری ایک دنبی پر بھی نظر رکھے بیٹھا ہے۔ حضرت داؤد ؑ اپنے انسان دوستی کے جذبات کاشکار ہوگئے اور اتنا بھی صبر نہ کیا کہ دیکھیں کہ مدعا علیہ کیا کہتا ہے۔ آخر اُس کے پاس بھی اپنے دفاع میں کچھ ہے یا نہیں؟ فوراً فرمایا: درحقیقت (یا شاید فرضی صورت میں، اگر ایسا ہو تو) اس نے تجھ پر ظلم کیا ہے۔ جب وہ ایسا کر بیٹھے تو یکایک انہیں احساس ہوا کہ اے داؤد! فیصلہ کرنے کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ دوسرے کی بات کو سنے بغیر کوئی بات کہو۔ قاضی کو خاموش رہنا چاہئے، دوسرے کو اپنی بات کہنے کا موقع دینا چاہئے، تاکہ وہ اپنا دفاع کرسکے، اس کے بعد اسے اپنی بات کہنی چاہئے۔ اس مقام پر حضرت داؤد کو احساس ہوا کہ اُن سے غلطی ہوگئی ہے، نہ صرف انہیں اس بات کااحساس ہوا کہ انہوں نے غلط فیصلہ کیا ہے، بلکہ فوراً ہی اپنی غلطی کی وجہ بھی جان گئے۔

اے داؤد ! غلطی کی اصل وجہ کیا ہے؟

وجہ یہ ہے کہ تمہارے اندر ”میں“ آگئی تھی، تم یہ سمجھ رہے تھے کہ ”میں کچھ ہوں“۔ اسی ”میں“ نے تمہیں نقصان پہنچایا ہے۔ قرآن میں کسی عورت کا تذکرہ نہیں ہے، کسی ”اوریا“ کا ذکر نہیں ہے، کسی اڑ جانے والے پرندے کی بات نہیں ہے، ان باتوں کا ذکر نہیں ہے ۔

 

یہ واقعہ گھڑنے کی وجہ

اب دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح یہ واقعہ ہم مسلمانوں کی بعض کتابوں میں درآیا؟ ہم آپ سے صرف اتنا کہیں گے کہ: یہودیوں سے خدا کی پناہ، ان کے ہاتھوں دنیاکو کیا کیا سہنا پڑا؟ ایک کام جو قرآن ان سے منسوب کرتا ہے، اور جو اب بھی }ان کی طرف سے {جاری ہے، وہ حقائق میں تحریف اور انہیں بدلنے کا کام ہے ۔ یہ لوگ شایددنیا کے ذہین ترین افراد ہوں، ایک غیر معمولی ذہین اور دھوکے باز قوم ہوں۔ اس ذہین اوردھوکے باز قوم کا ہاتھ ہمیشہ انسانی معاشرے کی شہ رگوں پر رہاہے، اقتصادی شہ رگ پر، ثقافتی شہ رگ پر۔

اگر کوئی ان تحریفات کو (جمع کرسکے) جو انہوں نے حتیٰ موجودہ دور میں بھی دنیا کی تاریخوں میں، جغرافیوں میں اور دنیا کی خبروں میں کی ہیں (تو یہ ایک مفید کام ہوگا)۔ البتہ کچھ لوگوں نے یہ کام کیا ہے، لیکن کافی حد تک نہیں کیا۔آج دنیا کی بڑی خبر رساں ایجنسیاں، جو ایک انتہائی حساس شہ رگ ہے، یہودیوں کے ہاتھوں ہی چل رہی ہیں، تاکہ دنیا میں واقعات کا حتیٰ لامکان اپنی مرضی کے مطابق پروپیگنڈہ کریں اورانہیں حسبِ خواہش دنیا تک پہنچائیں۔

جس ملک میں بھی اُن کے لئے ممکن ہوتا ہے، وہ ان شہ رگوں کو، آج کل کی زبان میں ذرائع ابلاغِ عامہ کو، جیسے مطبوعات اورمجموعی طور پر ان اداروں کوجہاں سے افکار کو تبدیل کیا جاسکتا ہے، منحرف کیا جاسکتا ہے، پروپیگنڈہ کیا جاسکتا ہے اوربدلاجاسکتا ہے، نیز اقتصادی شہ رگوں کو (اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں)۔ قدیم دور سے ہی ان کا یہ کام رہا ہے۔ ایک مقام پرقرآنِ مجید فرماتا ہے:

اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ وَ قَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلٰمَ اﷲِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْم بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَ ہُمْ یَعْلَمُوْنَ۔

مسلمانو !کیا تمہیں امید ہے کہ یہ یہودی تمہاری طرح ایمان لے آئیں گے، جبکہ ان کے اسلاف کاایک گروہ کلامِ خدا کو سُن کر تحریف کردیتا تھا، حالانکہ سب سنتے بھی تھے اور جانتے بھی تھے۔ سورۂ بقرہ۲۔آیت ۷۵

مسلمانو! تم ان کے ایمان لانے کے منتظر ہو؟ کیا تم انہیں پہچانتے نہیں ہو؟ یہ وہی لوگ ہیں (یعنی اب بھی اُن کی روح وہی روح ہے، وگرنہ اگرکسی کے اجداد گمراہ ہوں، تو یہ ان کے موجودہ لوگوں کے گمراہ ہونے کی دلیل نہیں ہوتی۔ انہوں نے اپنے اجداد کی اُسی روح کو زندہ رکھا ہوا ہے) کہ جب یہ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی تھے، تب بھی جب خدا کا کلام سن کر واپس لوٹتے تھے، تو اسے اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کر دیا کرتے تھے، اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے نہیں، بلکہ پوری طرح جانتے بوجھتے ہوئے۔

کئی ہزار سال پہلے سے آج تک تحریف اور حقائق کوبدل ڈالنا، یہودیوں کا ایک بنیادی کام رہا ہے۔ ہر قوم کے درمیان اُس کے لباس اور اُس کی روش کے مطابق ظاہر ہوتے ہیں اور اپنے افکار و نظریات کو انہی لوگوں کی زبان سے نشر کرتے ہیں، اپنے ارادوں کو انہی لوگوں کی زبان سے کہلواتے ہیں۔ مثلاً اگر شیعہ اور سنی کے درمیان اختلاف ڈالنا چاہتے ہیں، توایسا نہیں ہوتا کہ خود کچھ بولیں، بلکہ ایک سنی کو ڈھونڈ نکالتے ہیں، اور وہ اپنے امکان بھر شیعوں کے خلاف جھوٹ بولنا اوراُن پر تہمت لگانا شروع کردیتا ہے ۔ البتہ حق کا دفاع اپنی جگہ درست ہے، جھوٹی باتوں کو مسترد کرنا چاہئے، لیکن بعض اوقات ایسے افراد ان کو مل جاتے ہیں، جیسے ”الخطوط العریضۃ“ کا مصنف، کہ وہ بھی آکر چار جھوٹی باتیں منسوب کردیتا ہے۔ اِس کی زبانی اُس پر جھوٹ باندھتے ہیں اور اُس کی زبانی اِس پر۔ انہوں نے اپنی توریت کو بھی ان جھوٹی باتوں سے بھر دیا ہے۔ گزشتہ امتوں کے واقعات ہیں جو توریت نے ایک انداز سے نقل کئے ہیں اور قرآنِ مجید نے دوسرے انداز سے، بلکہ قرآنِ مجید نے انہیں اس انداز سے نقل کیا ہے کہ ان کے جھوٹ پر سے، جس میں انہوں نے واقعے کو تحریف کیا ہے، اورجسے تحریف شدہ توریت میں شامل کردیا ہے، پردہ اُٹھایا ہے۔

انہوں نے نعوذ باللہ قرآنِ مجید کو جھٹلانے کے لئے توریت کے حق میں کچھ روایات کو پیغمبرؐ یا ائمہ ؑ یا مثلاً بعض اصحابِ پیغمبرؓکے نام سے گھڑ لیا ہے۔ لیکن انہیں اس انداز سے گھڑا ہے کہ کوئی ان کے غیر حقیقی ہونے کو نہ سمجھ پائے ۔ مثلاً( یہ شاید عبرت آموز ہو) عمالقہ کے واقعے میں، جنہوں نے اسی موجودہ بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تھا، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام یہودیوں سے کہتے تھے کہ انہوں نے اس پر زبردستی قبضہ کیا ہے، چلو وہاں چلتے ہیں، لیکن یہ لوگ (جان بچایا ) کرتے تھے، کہتے تھے:

یَامُوْسٰٓی اِنَّا لَنْ نَّّدْخُلَہَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْھَا فَاذْہَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلااَآ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوْنَ ۔

ان لوگوں نے کہا کہ موسیٰ ہم ہرگز وہاں داخل نہیں ہوں گے، جب تک وہ لوگ وہاں ہیں، آپ اپنے پروردگار کے ساتھ جاکر جنگ کیجئے، ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ سورۂ مائدہ۵۔آیت ۲۴

قرآنِ کریم نے ان کو ذلیل کر دیا۔ جس قدر حضرت موسیٰ علیہ السلام کہتے : کچھ توغیرت سے کام لو، کچھ کر کے دکھاؤ، اپنا حق چھین لو۔یہ کہتے: نہیں، وہ طاقتور لوگ ہیں، ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، تم اور تمہارا خدادونوں وہاں جاؤ، وہاں جاکر جنگ کرواورعمالقہ کو باہرنکال دو، جب کام پورا ہوجائے، تو ہمیں اطلاع کر دینا، پھر ہم وہاں چلیں گے۔ بولے:

گر بہ مغزم زنی و گر دنبم

کہ من از جای خود نمی جنبم(۴)

حضرت موسیٰ علیہ السلام دوبارہ آئے، اور اُن سے بات کی کہ یہ کیا کہہ رہے ہو؟ خدا پر بھروسہ کرو، خدا کی راہ میں جہاد کرو۔ اگر خدا کی راہ میں جہاد کرو گے، تو خدا تمہاری مدد کرے گا۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ ایک عملی معاملہ تھا۔

کہنے لگے: ہم ہرگزہرگز نہیں جائیں گے۔

یہاں قرآنِ مجید نے انہیں اس طرح رسواکیا ہے، کہتا ہے یہ لوگ لالچی تھے، چاہتے تھے کہ بغیر تکلیف اٹھائے (سرزمینِ بیت المقدس) مفت ان کے ہاتھ آجائے ۔ جنگِ بدر میں بظاہر مقداد اسود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا تھا: اے اللہ کے رسولؐ! ہم آپ سے وہ بات نہیں کہیں گے جو یہودیوں نے حضرت موسیٰ سے کہی تھی کہ تم اپنے خدا کے ساتھ جاؤ اور ان کے ساتھ جنگ کرو، جب اُن کا قصہ پاک ہوجائے اور رکاوٹیں ختم کرلو، تو ہمیں اطلاع کردینا۔ہم آپ سے کہتے ہیں کہ آپ ہمیں جوحکم دیں گے، ہم اُس کی اطاعت کریں گے، اگرآپ حکم دیں گے کہ ہم سمندر میں کود جائیں، تو ہم سمندر میں کود پڑیں گے۔

ان لوگوں نے سوچا کہ کس طرح توریت کی تائید اور قرآن کی تکذیب کی جائے اور مسلمان سمجھ بھی نہ پائیں کہ ہم قرآن کی تکذیب کر رہے ہیں۔لہٰذا انہوں نے عمالقہ کے بارے میں افسانے تراشے۔ کہنے لگے: یہ عمالقہ جو بیت المقدس میں تھے، جانتے ہو یہ کیسے لوگ تھے؟ (وہ کہنا چاہتے تھے کہ اگرہماری قوم ان سے لڑنے نہیں گئی، تو حق بجانب تھی، نعوذ باللہ قرآن کا اعتراض بے جا ہے، یہ جنگ کا موقع ہی نہ تھا۔ لیکن بہت سے مسلمانوں نے یہ بات نہیں سمجھی)وہ قوم جو وہاں تھی، اس کے آدمی معمولی لوگ نہ تھے، جن سے جنگ ممکن ہوتی۔ البتہ یہ نہیں کہا کہ ”ان سے جنگ کی جاسکتی تھی“ کیونکہ اس طرح مسلمان سمجھ جاتے۔ کہنے لگے وہاں کے لوگ عُناق نامی عورت کی اولاد تھے، اور عناق وہ عورت تھی کہ جب بیٹھتی تھی تو دس مربع جریب(۵) کی جگہ گھیرتی تھی۔ اس کا عِوَج نامی ایک بیٹا تھا، جب حضرت موسیٰ اپنے عصا کے ساتھ اس کے سامنے کھڑے ہوئے، تو باوجودیہ کہ اُن کا قد چالیس ہاتھ کاتھا اور ان کا عصا بھی چالیس ہاتھ لمبا تھا اوروہ زمین سے چالیس ہاتھ اچھلے تھے، تب کہیں جاکے اُن کا عصا عوج بن عناق کے ٹخنے تک پہنچا تھا۔ ان کے کچھ لوگ بیت المقدس کے ریگستان میں آئے ہوئے تھے۔ حضرت موسیٰ نے کچھ جاسوسوں کو بھیجا تھا تاکہ معلوم کر یں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ جن کا قد کئی فرسخ کا تھا، وہ سمندر سے مچھلیاں پکڑتے تھے اور سورج سے انہیں بھون کر کھالیا کرتے تھے اور صحرا میں اس طرح سے چلا کرتے تھے، ایک مرتبہ ان میں سے کسی نے دیکھا کہ کچھ چیزیں زمین پرحرکت کر رہی ہیں (یہ وہی حضرت موسیٰ کے لوگ تھے) اس نے ان میں سے چند ایک کو اٹھایا، اپنی آستین میں ڈالا اور اپنے بادشاہ کے پاس آکر انہیں وہاں زمین پر پھینکا اور بولا: یہ لوگ ہم سے یہ علاقہ چھیننا چاہتے ہیں۔

اگر سچ مچ بیت المقدس میں ایسی کوئی قوم رہتی تھی، توموسیٰ نے خواہ مخواہ کہا کہ وہاں جاؤ اور قبضہ کرلو، یہودی حق بجانب تھے، جو یہ کہتے تھے کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے، تم اور تمہارا خدا جاؤ اور انہیں باہر نکال دو، ہم بعد میں آجائیں گے۔ وہ کوئی معمولی لوگ نہیں تھے۔

ان لوگوں نے یہودیوں پر قرآن کی تنقید کو مسترد کرنے کے لئے چالاکی سے یہ افسانے گھڑ لئے اور مسلمانوں کی زبان پر چڑھا دیئے۔ بعد میں خود مسلمان بیٹھ کر عوج بن عناق کی باتیں سنایا کرتے تھے، عمالقہ کوبڑھا چڑھاکربیان کیا کرتے تھے اور یہ }کہا کرتے تھے{کہ اگر معاملہ یوں تھا تو قرآن ان سے کیا کہتا ہے؟

حضرت داؤدعلیہ السلام کے معاملے میں بھی مسئلہ کچھ ایسا ہی تھا۔ یہ پرندے کا قصہ اور حضرت داؤد ؑ کا ”اوریا“ کی بیوی پر عاشق ہوجانااور پھر ”اوریا“ کو قتل کروادینابھی (ایک جعلی داستان ہے) ۔ اس سے بھی بدترانہوں نے کہا ہے کہ ابھی ”اوریا“ زندہ ہی تھا کہ حضرت داؤد ؑ اس کی بیوی کو اپنے گھر لے آئے اورنعوذ باللہ اس کے ساتھ زنا کیا اور سمجھے کہ بات آئی گئی ہوگئی ہے، لیکن کچھ عرصے بعد اس عورت نے آپ کو بتایا کہ میں حاملہ ہوچکی ہوں، اب کیا کروں؟ جب حضرت داؤد ؑ نے دیکھا کہ عورت ان سے حاملہ ہوچکی ہے اور کل بچہ متولد ہوگا تو ان کا پول کھل جائے گا، لہٰذا انہوں نے حکم دیا کہ اسے مار ڈالا جائے۔

قرآنِ مجید نے حضرت داؤدعلیہ السلام کی داستان کو انتہائی پاکیزگی اورشفافیت کے ساتھ نقل کیا ہے اور تحریف شدہ توریت نے اسے اس قدر ناپاک انداز اورغلاظت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ بعد میں یہودیوں نے ان جعلی روایات کو مسلمانوں کی زبانوں پر جاری کردیا۔ اس مقام پر ائمۂ اہلِ بیت علیہم السلام کی اہمیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ امام رضاعلیہ السلام ان کے جھوٹ سے پردہ اٹھاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تم یہ کیسی بکواس اور بیہودہ باتیں کرتے ہو؟ یہ تم اللہ کے نبی کی طرف کیسی باتیں منسوب کرتے ہو؟ قرآنِ مجید میں کہاں ایسی باتیں آئی ہیں؟ قرآنِ مجید تواس واقعے کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہتا کہ کچھ لوگ آئے (حضرت داؤد ؑ کے پاس اور ان میں سے ایک نے دوسرے کی شکایت کی)، اور فیصلے کے متعلق بھی صرف اتناکہتا ہے کہ حضرت داؤد ؑ نے مدعی کی بات سنی، تو فوراً ہی اپنا فیصلہ سنا دیا، پھر یکبارگی انہیں احساس ہوا کہ ان سے غلطی ہوگئی ہے، جس پر انہوں نے استغفار کیا۔ یہ واقعہ تھا، اس میں کسی عورت کا تذکرہ ہی نہیں۔

اس واقعے کے دو پہلو ہیں: آنے والے وہ لوگ فرشتے تھے یا انسان؟ اگر انسان تھے، تو یہ ایک سچا واقعہ تھا۔ لہٰذا خدا ہی نے ان انسانوں کوبھیجا تھا، اوریہ حضرت داؤد کومتنبہ کرنے کے لئے نہیں آئے تھے، بلکہ سچ مچ انہیں ایک مسئلہ پیش آیا تھا۔ لیکن جب حضرت داؤد ؑ نے اس فیصلے میں عجلت سے کام لیا تویکبارگی خود ہی متوجہ ہوگئے۔ پس یہاں پر کسی ناجائز ذریعے، اور کسی جھوٹ سے کام نہیں لیا گیا ہے۔

اور اگرجو لوگ آئے وہ فرشتے تھے اورحضرت داؤد ؑ کی تنبیہ کے لئے آئے تھے، توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ فرشتے حضرت داؤد کو متوجہ کرنے کی خاطر ایک جعلی ڈرامہ رچانے کے لئے کس طرح پہنچ گئے؟ اور جو سوال ہم سے ہوا تھا وہ اس اعتبار سے تھا کہ کس طرح دو فرشتوں نے آکر ایک جعلی ڈرامہ رچایا؟ البتہ ان کا مقصد حضرت داؤد کوتنبیہ کر نا تھا، جو ایک مقدس مقصد ہے، لیکن جو داستان انہوں نے بیان کی وہ جعلی ہے۔

جواب

یہاں ہم وہی بات عرض کریں گے جو علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان میں بیان فرمائی ہے، اگرچہ انہوں نے جو کچھ بیان کیا ہے، وہ ایک اعلیٰ سطح کا ہے، اس لئے شایدہم اسے اس نشست میں بیان نہ کرپائیں۔ وہ فرماتے ہیں: پہلی بات تو یہ ہے کہ اُن کافرشتے ہونا یقینی بات نہیں ہے، اوراگر بالفرض وہ فرشتے ہوں بھی، تو وہ فرشتوں کا تمثّل تھا، اور فرشتوں کا تمثُّل اُس سے مختلف ہے کہ عالمِ مادّی اور عالمِ تکلیف میں کچھ لوگ(حضرت داؤد ؑ کے پاس آئیں اور اُن سے ایک جھوٹی داستان بیان کریں)جو اُن کے لئے جائز نہیں ۔ بالفاظِ دیگر وہ فرماتے ہیں کہ: یہ مسئلہ ایک سچی یا جھوٹی بات ہے، اور ہماری یہ ذمے داری کہ ہم سچ بولیں، جھوٹ نہ بولیں، عالمِ مادّی اور عالمِ عینی سے تعلق رکھتی ہے۔ اگر عالمِ مادّی اور عالمِ عینی میں دو موجود حضرت داؤد ؑ کے پاس آتے ہیں اور اپنی بات کہتے اور جھوٹ بولتے ہیں، تو اس کا تعلق اس معاملے سے تھا، جبکہ تمثُّل کا مسئلہ ایک مختلف مسئلہ ہے۔

مسئلۂ تمثُّل یعنی ایک حقیقت کاکسی اور صورت میں ظاہر ہونا، جیسے سچے خواب۔ سچے خواب باوجودیہ کہ تمثُّل ہے، ان میں سچ اور جھوٹ ان معنوں میں نہیں ہوتا۔ مثلاً (ہم یہ مثال عرض کرتے ہیں) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب میں دیکھتے ہیں کہ بندروں کا ایک گروہ اُن کے منبر پر چڑھ اور اتر رہاہے اور اُن کی امت کے لوگ منبر کے نیچے بیٹھے ہوئے ہیں، ان لوگوں کے چہرے منبر کی جانب ہیں اور وہ اُلٹے چلے جارہے ہیں۔آپ غمگین حالت میں نیند سے بیدار ہوتے ہیں۔ محسوس کرتے ہیں کہ یہ عالمِ اسلام پر ایک کاری ضرب کی علامت ہے۔ جبرئیل پیغمبر ؐکے لئے اس خواب کی تفسیر بیان کرتے ہیں

وَ مَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِیْٓ اَرَیْنکَاٰا اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَۃَ الْمَلْعُوْنَۃَ فِی الْقُرْاٰنِ وَ نُخَوِّفُہُمْ فَمَا یَزِیْدُہُمْ اِلَّا طُغْیَانًا کَبِیْرًا

اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھایا ہے وہ صرف لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ ہے جس طرح کہ قرآن میں قابلِ لعنت شجرہ بھی ایسا ہی ہے اور ہم لوگوں کو ڈراتے رہتے ہیں لیکن اُن کی سرکشی بڑھتی ہی جارہی ہے ۔ سورۂ بنی اسرائیل۱۷۔آیت ۶۰

کہ اس خواب کی تعبیر ہے اور تعبیر یہ ہے کہ آپ کے بعد بنی امیہ آپ کی امت پر مسلط ہوجائیں گے، آپ کے اسی منبر پر بیٹھیں گے، اسلام کے ظواہر کو ملحوظ رکھیں گے، اسلام کے نام پر بات کریں گے، لوگوں کا رُخ بھی اسلام کی جانب ہوگا لیکن عملی طور پر لوگوں کو اسلام سے دور کریں گے۔

یہ وہ خواب ہے جو اللہ نے اپنے پیغمبر کو دکھایا۔ یہ خواب جھوٹا ہے یا سچا؟ اگر کہیں کہ سچا خواب وہ ہوتا ہے جو اسی طرح ظاہر ہو جس طرح انسان نے دیکھا ہے، تو اس صورت میں یہ ایک جھوٹا خواب ہے۔ کیونکہ حقیقت میں رسولؐ کے منبر پرکوئی بندر نہیں چڑھا تھا، اورحقیقت کی دنیا میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا تھا کہ لوگ منبر رسولؐ کے نیچے بیٹھے ہوں اور ساتھ ہی اُلٹے چلتے ہوئے اس سے دور ہورہے ہوں۔ لیکن اس کے باوجود یہ ایک سچا خواب ہے ۔کیونکہ ایک حقیقت کی تصویر ہے۔ بندر بنو امیہ کا تمثّل ہیں اور لوگوں کا بیٹھے ہوئے الٹے چلنا، اسلام کی شکل و صورت کاباقی رہنا اور اُس کی روح اور حقیقت کا ختم ہوجانا ہے۔

اگرایک پیغمبرؐ کے لئے فرشتے متمثل ہوتے ہیں، یعنی اُن کے تمثّل میں کوئی حقیقت اس صورت میں متمثل ہوتی ہے، تو وہاں سچ اور جھوٹ کا مسئلہ اس شکل میں پیشِ نظر نہیں ہوتا۔ نبی ؐکے سامنے فرشتوں کے تمثّل کا سچ اور جھوٹ ہونااس بات سے وابستہ ہے کہ وہ ایک حقیقت پر منطبق ہوتاہے یا نہیں، اگر ایک حقیقت پر منطبق ہوتا بھی ہے تو اس صورت میں جس میں وہ متمثّل ہوا تھا عالمِ حقیقی میں بھی اسی طرح سے واقع نہیں ہوتا، جیسے کہ سچے خواب میں یہ ضروری نہیں ہے کہ جس صورت میں متمثّل ہوا ہے، اسی صورت میں دنیائے حقیقت میں بھی واقع ہو۔

لہٰذا بالفرض اگر یہ فرشتے بھی ہوں (اگرچہ ان کا فرشتے ہونا یقینی نہیں ہے) توآخر کیوں ایک حقیقت کے لئے اس طرح کے ذریعے سے استفادہ کیا گیا؟ اس سوال کا جواب وہی ہے جو علامہ طباطبائی نے دیا ہے اورہمارے خیال میں بھی یہ جواب درست ہے۔ اگرچہ مجھے نہیں معلوم کہ بات کی جس طرح سے مجھے وضاحت کرنی چاہئے تھی اُس طرح میں کرسکا ہوں یا نہیں۔

۱۔اور کہتا ہے کہ اسے میرے حوالے کردو، اورگفتگو میں مجھ پر دباؤ ڈالتا ہے۔

۲۔سورۂ ص۳۸۔آیت ۲۳، ۲۴

۳۔بحار الانوار۔طبع جدید۔ ج۱۶۔ ص۲۱۷

۴۔یعنی چاہے تم میرا سر پیٹو یا میری دُم، میں اپنی جگہ سے ہلنے والا نہیں۔

۵۔ دس ہزار مربع میٹر زمین۔