تبشیر اور انذار کے علاوہ، ہمارے پاس ایک اور عمل بھی ہے، جس کا نام ”تنفیر“ ہے۔ تنفیر یعنی بھگا نے کا کام کرنا۔ کبھی انسان کرنا تو انذار چاہتا ہے، لیکن انذار او رتنفیر کے درمیان غلط فہمی کاشکار ہوجاتا ہے۔ انذار اس وقت انذارہوتا ہے جب سائق کا کام کر ے، یعنی واقعاًانسان کو پیچھے سے آگے کی جانب ہانکے۔ لیکن تنفیر، یعنی ایسا کام کرنا کہ انسان بھاگ کھڑا ہو۔ ایک بار پھر وہی جانور کی مثال دیتے ہیں:یہ ایسے ہی ہے جیسے انسان کسی جانور (اونٹ یا گھوڑے) کو کھینچتا ہے، پھر اسے مزید اپنے پیچھے دوڑانے کی خاطرایک طرح سے شورمچاتا ہے، یہاں تک کہ ایک مرتبہ وہ جانور زور سے اپنا سر پیچھے کی طرف کھینچ کر، لگام تڑا کر بھاگ کھڑاہوتا ہے۔ اسے ”تنفیر“ کہتے ہیں۔
کبھی کبھی بعض دعوتیں ایسی ہوتی ہیں جو انسان کی روح کے لئے نہ صرف سائق اور قائد نہیں ہوتیں بلکہ تنفیر ہوجاتی ہیں۔ یعنی نفرت پیدا کرنے والی اور فرار کروانے والی ہوتی ہیں ۔ یہ ایک نفسیاتی اصول ہے۔ انسان کی روح اور نفسیات اسی قسم کی ہے۔ وہی بچے اور اسکول کی مثال عرض کرتے ہیں: بسا اوقات ماں باپ یا بچوں کے بعض اساتذہ تبشیر اور انذار کی بجائے تنفیر کرتے ہیں، یعنی کوئی ایسا کام کرڈالتے ہیں کہ بچے کی روح میں اسکول کے لئے نفرت اور گریز کی حالت پیدا ہوجاتی ہے، اور ایسے بچے کی روح کا ردِعمل اسکول سے گریز ہوتا ہے۔
تاریخ لکھتی ہے کہ(۱) جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمن(۲) کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے اور اسکی تبلیغ کے لئے وہاں مُعاذ بن جبل کو بھیجا تو( سیرتِ ابن ہشام کے مطابق) انہیں یہ تاکید کی کہ:
یَا مُعاذُ بَشِّرْ وَ لَا تُنَفِّرْ، یَسِّرْ وَ لَا تُعَسِّرْ۔
تم اسلام کی تبلیغ کے لئے جا رہے ہو۔ تمہارے کام کی بنیاد تبشیر، ترغیب اور خوشخبری پر ہونی چاہئے، ایسا کام کرناکہ لوگ اسلام کی خوبیوں کو محسوس کریں اورشوق و رغبت کے ساتھ اسلام کی طرف رخ کریں۔ آپ نے یہ نہیں فرمایاکہ: وَلَا تُنْذِرْ۔ انذار نہ کرنا، کیونکہ انذاراُس دستور کا
حصہ ہے جو قرآنِ کریم نے فراہم کیا ہے۔ جس بات کی طرف پیغمبر اکرمؐ نے اشارہ فرمایا، وہ یہ تھی کہ بَشِّرْ وَ لَا تُنَفِّرْ۔ ایسا کوئی کام نہ کرناجس سے لوگوں کو اسلام سے دور اور متنفرکردو۔ بات کو اس طرح سے بیان نہ کرنا کہ لوگوں کا باطنی ردِعمل اسلام سے فرار کی صورت میں سامنے آئے۔
یہ انتہائی اہم نکتہ ہے اور اس کی وضاحت کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے ایک اور نکتہ خود رسولِ اکرمؐ }کی ایک حدیث {اور اسکی توضیح وتشریح اور تائید میں ائمۂ اہلِ بیت علیہم السلام کی روایات سے عرض کرتے ہیں۔
۱۔ بظاہر ایسا متعدد مرتبہ پیش آیا ہے، ہم اُس موقعے کا ذکر کر رہے ہیں جو ہمیں یاد ہے۔
۲۔ یمن ان علاقوں میں سے ایک ہے جہاں کے لوگ بغیر کسی لشکر کشی کے مسلمان ہوئے تھے۔ یمن کے لوگوں کے مسلمان ہونے کا سبب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُس خط کا واقعہ ہے جوآنحضرتؐ نے ایران کے بادشاہ خسرو پرویز کو لکھا تھا اور اسے اسلام قبول کرلینے کی دعوت دی تھی۔ آپ نے دنیا کے تمام بڑے حکمرانوں کو خطوط لکھے تھے اور انہیں اپنی رسالت سے آگاہ کیا تھا، انہی میں سے ایک ایران کا بادشاہ خسرو پرویز تھا۔ اگرچہ ان میں سے بعض حکمرانوں نے ان خطوط کاکوئی جواب نہیں دیا لیکن بہت سے حکمرانوں نے نہایت احترام اورانکساری کے ساتھ جواب دیئے۔ پیغمبرؐ کے سفیر کے ساتھ احترام سے پیش آئے، اس کے ساتھ حضورؐ کے لئے تحائف بھیجے اور مختصر یہ کہ انتہائی مودبانہ جواب دیئے۔واحد شخص جس نے بے ادبی کامظاہرہ کیا وہ خسرو پرویز تھا جس نے آنحضرتؐ کے خط کوپھاڑ دیا۔کیونکہ یمن کا بادشاہ ایران کا مقرر کردہ تھا اور یمن ایران کے زیرسرپرستی تھا، اس لئے اس نے یمن کے بادشاہ ”بازان“ کو خط لکھا اور اُس سے پوچھا کہ جزیرۃ العرب میں یہ کون شخص پیدا ہواہے جس نے مجھے خط لکھنے اور دعوت دینے کی اور اپنا نام میرے نام سے پہلے لکھنے کی جرأت کی ہے؟ *فوراً کسی کو اس شخص کے بارے میں تحقیق کے لئے بھیجو جو اسے دست بستہ یمن لے آئے، پھر اسے میرے پاس بھیج دو تاکہ میں اسے سزا دوں، اُس نے اوربھی اسی قسم کی بیہودہ باتیں تحریر کیں۔ یمن کے بادشاہ نے ایران کے نمائندے کو اپنے ایک نمائندے کے ہمراہ رسولِ اکرؐم کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا اور بولا: خسرو نے اس طرح کا خط لکھا ہے، آپ اس کا کیا جواب دیتے ہیں؟ پیغمبر اکرمؐ نے انہیں کوئی جواب نہ دیا۔ جب وہ جواب لینے کے لئے آئے تو فرمایا: ٹھیک ہے، ابھی میرے جواب دینے تک یہیں ٹھہرو۔ وہ چند دن بعد دوبارہ حاضر ہوئے۔ فرمایا: پھر کبھی آنا۔ شاید آپ انہیں تقریباً چالیس دن تک یوں ہی ٹالتے رہے ۔ ایک دن وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورکہا:اب ہم اس سے زیادہ نہیں ٹھہرسکتے، ہم نے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے، آخر کارآپ کا جو بھی جواب ہے وہ دے دیجئے۔ ہمارے بادشاہ خسرو پرویز کو کیا جواب دے رہے ہیں؟ فرمایا: اس کا جواب یہ ہے کہ ”گزشتہ رات ہمارے خدا نے تمہارے بادشاہ خسرو پرویز کا پیٹ اس کے بیٹے ”شیرویہ“ کے ہاتھوں چاک کردیا ہے اور اب موضوع ہی ختم ہوچکا ہے۔“ان لوگوں نے واپس جاکریہ خبر ”بازان“ کو سنائی (ابھی اس واقعے کی اطلاع یمن میں نہیں پہنچی تھی کیونکہ مدائن سے وہاں تک فاصلہ بہت زیادہ تھا) ”بازان“ نے کہا: اگر یہ سچ ہوا، تو یہ اس شخص کی نبوت کی علامت ہے۔ ہم انتظار کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ایران سے کیا خبر آتی ہے۔ چند دن بعد ”شیرویہ“ کا قاصد آیااوراُس کایہ پیغام لایا کہ خسرو پرویز مارا گیا ہے اور اب میں اس ملک کا بادشاہ ہوں۔ جس شخص نے عربستان میں نبوت اور رسالت کا دعویٰ کیا ہے، تم اس کے مزاحم نہ ہونا۔ یہیں سے یمن میں اسلام کے لئے زمین ہموار ہوئی۔ اسکے علاوہ یمن میں بڑی تعداد میں ایرانی مقیم تھے۔ ہم نے کتاب ”خدماتِ متقابل اسلام و ایران“ میں اس موضوع کا ذکر کیا ہے کہ بنیادی طور پر ایرانی پہلی بار یمن ہی میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے اور تبلیغ کے حوالے سے ایرانیوں میں اسلام یمن ہی سے آیا ہے اور جو خلوص یمن میں مقیم ایرانیوں نے دکھایا وہ کسی اور نے نہیں دکھایا۔ اور کیونکہ یمن ایران کے زیرِسرپرستی تھا اس لئے ایرانیوں کی بڑی تعداد یمن جا کر وہاں مقیم ہوگئی تھی، انہیں ابناء، احرار اورآزادگان کہا جاتا تھا اور انہوں نے دوسروں سے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ یمن کی نصف آبادی رسول اللہ ؐ کے زمانے ہی میں مسلمان ہوچکی تھی، اور دوسری نصف آبادی کے لئے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئی تھی، پیغمبر اکرمؐ نے ایک مرتبہ معاذ بن جبل کو اور ایک بار حضرت علی علیہ السلام کو تبلیغ اور دعوت کے لئے یمن بھیجا کہ یہ دوسری مرتبہ حجۃ الوداع کے موقع پر تھا، یعنی وصالِ پیغمبرؐ سے دو ماہ قبل، جب حضرت علی علیہ السلام یمن سے واپس لوٹے، تو آپ نے مکہ میں رسول اللہؐ سے ملاقات کی اور جب حضورؐنے آپ ؑ سے سوال کیا کہ اے علی ؑ !آپ نے کس طرح احرام باندھا؟ یعنی آپ نے کس قسم کے حج کی نیت کی ہے؟ حج تمتع کی نیت کی ہے یا کسی اور کی؟ تو حضرت علی ؑ نے فرمایا: میں نے جب میقات میں نیت کی تھی، تو یہی نیت کی تھی کہ جو رسول اللہ کی نیت ہو۔ جو نیت آپ ؐنے کی ہے میں نے بھی وہی نیت کی ہے۔ اس پر آنحضرتؐ نے فرمایاتھا: بہت خوب، ہم نے اس طرح سے نیت کی ہے، آپ نے بھی اسی طرح نیت کی ہے اور آپ کی نیت درست ہے۔
* رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معمول کے مطابق لکھا تھا کہ یہ خط کس کی جانب سے کس کے نام ہے۔ جبکہ اسے توقع تھی کہ یہ لکھا جاتا کہ کس کے نام کس کی جانب سے۔ یعنی آنحضرت ؐاس بات کا اظہار کریں کہ میں تم سے کمتر ہوں، حالانکہ کس کی جانب سے کس کے نام ہونا، بزرگی کی علامت نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک فطری قاعدہ ہے لیکن (وہ یہ سمجھتا تھا کہ )اگر یہ لکھیں کہ ”کس کے نام کس کی جانب سے“ تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ تم ایک بہت بڑے بت ہو۔