وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ۔ یہ بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نرم اخلاق کا ایک انداز تھا۔ (قرآن کہتا ہے) اے ہمارے نبی، اے ہمارے عزیز! کاموں کے دوران مسلمانوں سے مشورہ کیجئے۔
کس قدر عجیب بات ہے! وہ پیغمبر ہیں، اُنہیں مشورے کی ضرورت نہیں، ایسا قائد مشورہ کرتا ہے جسے مشورے کی ضرورت ہو۔اُنہیں تو مشورے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ لیکن اس لئے کہ اس اصول کی بنیاد نہ پڑ جائے کہ بعد میں جو بھی حکمراں اورقائدبنے (اسکے بارے میں کہیں کہ) وہ دوسروں سے بالاتر ہے، اس کا کام حکم صادر کرنااور دوسروں کاکام اس حکم کی تعمیل کرناہے، مشورہ بے معنی ہے، (لہٰذاآپ مشورہ کیا کرتے تھے)۔ حضرت علی ؑ بھی مشورہ کیا کرتے تھے، پیغمبربھی مشورہ کیا کرتے تھے۔ انہیں مشورے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، لیکن پھر بھی مشورہ کیا کرتے تھے، اس لئے تاکہ اوّلاًدوسرے سیکھیں اور ثانیاًمشورہ لے کر اپنے ساتھیوں اور پیروکاروں کو اہمیت دیتے تھے ۔ جوقائد مشورہ کئے بغیر( اگرچہ اسے اپنی رائے کے صحیح ہونے کاسو فیصد یقین ہو) فیصلہ کرتا ہے، اس کے پیروکار وں کے کیا احساسات ہوتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں: معلوم ہوتا ہے ہماری حیثیت ایک آلۂ کارکی سی ہے، بے روح اور بے جان آلۂ کار ۔ لیکن جب خود انہیں بھی معاملات میں شریک کیا جائے، اُن پر واضح کیا جائے، اور فیصلے میں شامل کیا جائے، تو انہیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اُن کی بھی حیثیت ہے، جس کے نتیجے میں وہ بہتر طور پر پیروی کرتے ہیں۔
وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اﷲِ۔
اور ان سے مشورہ کرو اور جب فیصلہ کر لو تو اﷲ پر بھروسہ کرو۔ سورۂ آل عمران۳۔ آیت ۱۵۹
اے رسول! ایسا نہ ہو کہ تمہارے مشورے کی نوعیت ایسی ہوجائے کہ تم تردد کا شکار انسانوں کی طرح ہوجاؤ، فیصلہ کرنے سے پہلے مشورہ کرو، لیکن قائد جب فیصلہ کرلے، توپھر اس کا فیصلہ اٹل ہونا چاہئے۔ فیصلہ کرلینے کے بعد ایک شخص اٹھ کر کہے کہ اگر ایسا کیا جائے تو کیسا ہے؟ دوسرا کہے اس طرح کریں تو کیسا ہے؟ تو ان کے جواب میں کہنا چاہئے: نہیں، فیصلہ ہوچکا ہے، بات ختم ہو چکی ہے۔ فیصلے سے پہلے مشورہ اور فیصلے کے بعد اس پر جمے رہنا۔ فیصلہ کرلینے کے بعد خدا پر توکل کرو اور اپنا کام شروع کردو اور خدائے متعال سے مدد طلب کرو۔
یہ نکتہ جوہم نے عرض کیا، دعوت اور تبلیغ کی بحث کے حوالے سے تھا۔ دعوت اور تبلیغ کا ایک اصول نرمی، ملائمت اور ہر قسم کی بے جا سختی، زبردستی اور جبر سے پرہیز ہے۔
خود قیادت اور رہبری کا مسئلہ سیرتِ نبویؐ میں ایک مستقل اور جداگانہ مسئلہ ہے۔ اگر ہم علیحدہ علیحدہ کرکے سیرتِ نبوی بیان کرنا چاہیں، تواس کا ایک موضوع معاشرے کی قیادت اور رہبری کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقۂ کار ہے ۔اس کے بارے میں ہم نسبتاً عرض کرچکے ہیں کہ پیغمبر اکرؐم کی رہنمائی کا انداز کیا تھا اوراسی طرح حضرت علی علیہ السلام کس انداز سے یہ عمل انجام دیتے تھے۔ بہرصورت قیادت ورہنمائی کے سلسلے میں پیغمبر اکرؐم کی روش خود ایک جداگانہ موضوعِ بحث ہے اور ان شاء اللہ شاید سیرتِ نبوی کی کسی اور مجلس میں ہم اس پر گفتگوکریں اور قیادت ورہبری کے باب میں سیرتِ نبوی کے دوسرے پہلو عرض کریں۔ فی الحال ہماری گفتگو دعوت اور تبلیغ کے حوالے سے ہے۔