سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ

قرآنِ مجید میں ابلاغ و دعوت کے بارے میں داعیانِ الٰہی کی زبان سے ”نُصح“ کا لفظ کثرت سے ذکرہوا ہے۔ نُصح یعنی خیرخواہی، یعنی خلوص۔ کیونکہ عربی زبان میں نُصح کی ضد ”غِشّ“ ہے۔ جب کسی چیز میں کوئی دوسری چیز شامل کردی جائے، تو اصطلاحاً کہتے ہیں کہ اس میں غِش داخل کردی گئی ہے ۔ نُصح کے مقابل غِش ہے، اس بنیاد پر مراد یہ ہوئی کہ گفتگو میں خلوص ہونا چاہئے۔ یعنی، بات انتہائی خیرخواہی اورجذبۂ ہمدردی کی بنیاد پر کہی گئی ہو۔ وہ شخص خدا کی طرف بلانے والااور پیغامِ الٰہی کا مبلغ ہوسکتا ہے، جس کے کلام میں نُصح پائی جائے، یعنی لوگوں کی خیر خواہی اور ان کی مصلحت کے سوا اس کا کوئی اورمحرک نہ ہو، اس کی باتیں دل سے نکلتی ہوں کہ:

اِنَّ الْکَلامَ اِذا خَرَجَ مِنَ الْقَلْبِ دَخَلَ فِی الْقَلْبِ وَ اِذا خَرَجَ مِنَ اللِّسانِ لَمْ یَتَجَاوَزِ الْآذانَ۔

”دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے“ اور جو بات صرف زبان سے نکلے اور} اسے کہنے والے کا{دل اس سے بے خبر ہو، وہ لوگوں کے کانوں سے آگے نہیں بڑھتی۔(۱) پیغمبرآکر یہی کہا کرتے تھے کہ: وَ اَنْصَحُ لَکُمْ، (۲) اَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ(۳) اِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَ(۴) اُن کی تمام باتیں یہی ہوا کرتی تھیں۔ جب حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام خدا سے اپنے کام کی سختی اور دشواری کا ذکر کرتے ہیں، تو وہ سختی صرف یہ نہیں ہے کہ کیونکہ مجھے فرعون جیسے طاقتور اور جبار کے سامنے بات کرناہے، اس لئے میراکام دشوار ہے۔ نہیں، کچھ دوسری سختیاں بھی ہیں}فرماتے ہیں{:بارِ الٰہا! میری مدد فرماتا کہ میں ایک ایسا موسیٰ بن جاؤں جس کے اندر کوئی دوسرا موسیٰ موجود نہ ہو، اس میں کوئی انانیت موجود نہ ہو، میں انتہائی خلوص کے ساتھ تیرا پیغام لوگوں تک پہنچا سکوں۔

۱۔یہ باتیں پیغامِ الٰہی کی تبلیغ کے بارے میں ہیں، دوسرے پیغاموں کی تبلیغ کا ان باتوں سے تعلق نہیں۔

۲۔سورۂ اعراف۷۔آیت ۶۲

۳۔سورۂ اعراف۷۔آیت ۶۸

۴۔سورۂ اعراف۷۔آیت ۲۱