کلامِ پیغمبر کی گہرائی
سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
بزرگوں کے کلام کی اہم بات یہ ہوتی ہے کہ ان کلمات میں بہت سے ایسے باریک نکات پوشیدہ ہوتے ہیں جنہیں لوگ درک کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کلام کے بارے میں خود ارشاد فرمایاہے (اور عمل نے بھی نشاندہی کی ہے ):
اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمَ
خدا نے مجھے جامع کلمات عطا کئے ہیں۔
یعنی خدا نے مجھے یہ صلاحیت عطا کی ہے کہ میں ایک مختصر جملے میں مفاہیم کی ایک دنیا بیان کر سکتا ہوں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کو ہر شخص سنتاہے، لیکن کیا سننے والا ہر فرد کماحقہ آپ کے کلام کی گہرائی تک پہنچ سکتاہے؟ ہرگز نہیں! شاید سو میں سے ننانوے بھی نہیں پہنچتے ۔ دیکھتے ہیں خود نبیؐ اکرم کس طرح اس بات کی پیش بینی کرتے ہیں۔ حضوؐر کا ایک جملہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے : ”جو کلمات تم مجھ سے سنتے ہو انہیں محفوظ کرو، ان کی حفاظت کرو اورآئندہ آنے والی نسلوں کے حوالے کرو۔ ممکن ہے مستقبل قریب اور بعید میں آنے والی نسلیں میری باتوں کومیرے سامنے موجود تم لوگوں سے زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکیں۔“
اس مشہور حدیث میں، جو ہماری معتبر کتابوں میں ہے اور اُن احادیث میں سے ہے جنہیں شیعہ اور سنی دونوں نے روایت کیا ہے اور کافی، تحف العقول اور دوسری کتابوں میں موجود ہے، پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
نَصَرَ اللّٰہُ عَبْداً سَمِعَ مَقَالَتِیْ فَوَعاھا وَ بَلَّغَھا مَنْ لَمْ یَسْمَعْھا۔
خدا سرخ رو کرے اس بندے کو جو میری بات سنے، اسے یاد رکھے اور اُن لوگوں تک پہنچائے جنہوں نے اسے مجھ سے نہیں سنا۔
اسکے بعد اس جملے کا اضافہ فرمایا:
فَرُبَّ حامِلِ فِقْہٍ غَیْرِ فَقِیْہٍ وَ رُبَّ حامِلِ فِقْہٍ اِلٰی مَنْ ھُوَ اَفْقَہُ مِنہُ۔( سفینۃ البحار۔ ج ۱۔ ص۳۹۲)
اس جملے میں کئی نکات موجود ہیں۔ یعنی مستقبل کی طرف اشارہ ہے۔ ”فقہ“ یعنی گہری سمجھ۔ لیکن یہاں مراد ایسا جملہ ہے جس میں گہرائی پائی جاتی ہو۔ ”فقہ“ اور ”فہم“کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”فہم“ صرف سمجھنے کو کہتے ہیں، جبکہ ”فقہ“ گہرائی کے ساتھ سمجھنے کو کہاجاتا ہے ۔ جب فقہ کا اطلاق کلام پر ہوتا ہے، تو اس سے مراد ایسا کلام ہے جو زیادہ گہرائی کا حامل ہو ۔
آنحضرت ؐنے فرمایا ہے: بعض اوقات کچھ لوگوں کے پاس ایک گہرا کلام ہوتا ہے لیکن وہ خود گہرے نہیں ہوتے۔ وہ ہمیشہ ایک جملہ نقل کرتے ہیں، لیکن خود اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ پاتے۔ پھر فرمایا:بسا اوقات کچھ لوگوں کے پاس کوئی جملہ کوئی ”فقہ“ہوتی ہے۔ یعنی انہیں مجھ سے سنا ہوا کوئی جملہ یاد ہوتا ہے، وہ فقیہ بھی ہوتے ہیں، لیکن اس جملے کوایک ایسے شخص کے سامنے نقل کرتے ہیں جوخود اُن سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے ۔یعنی ایک ایسے شخص کے سامنے نقل کرتے ہیں جوخود اُن سے زیادہ عمیق ہوتا ہے اور اُس کی فکر کی گہرائی اُن سے زیادہ ہوتی ہے۔
جس شخص کے لئے نقل کیا جاتا ہے وہ اُن چیزوں کو سمجھ جاتا ہے جنہیں وہ نقل کرنے والا شخص نہیں سمجھ پاتا۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ جوں جوں صدیاں بیت رہی ہیں، ہرشعبے میں پیغمبر اکرمؐ کے کلام کی زیادہ سے زیادہ گہرائیاں (ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ پیدا ہورہی ہیں) منکشف ہورہی ہیں۔ (البتہ آپ جانتے ہیں کہ نبی اکرمؐ کے اوصیا، ائمۂ اطہار ؑ کا معاملہ مختلف ہے۔ ان کے کلمات پیغمبرؐ کے کلمات کی مانند ہیں۔ہم عام لوگوں کی بات کر رہے ہیں) پہلی اور دوسری صدی کے لوگ تیسری صدی کے لوگوں کی طرح پیغمبر اکرمؐ کے کلمات کی گہرائی تک کسی صورت نہیں پہنچ سکتے تھے، اور نہ تیسری صدی کے لوگ چوتھی صدی کے لوگوں کی طرح اور نہ چوتھی صدی کے لوگ پانچویں صدی کے لوگوں کی طرح۔
اسلامی علوم کی تاریخ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے۔ اگرآپ اخلاق کا مطالعہ کریں، فقہ کا مطالعہ کریں، معارف اور فلسفے کا مطالعہ کریں، عرفان کودیکھیں، تو آپ دیکھیں گے کہ جس موضوع پر بھی نبی اکرمؐ نے کلام فرمایا ہے، بعد کے ادوار میں آنے والے مفسرین واقعاً اس کلام کی گہرائی کو بہتر طور پر سمجھ سکے ہیں۔یہی پیغمبرؐ کا معجزہ ہے۔
اگر ہم صرف اپنی فقہ کو سامنے رکھیں، اور فقہی مسائل میں (کلماتِ) پیغمبر کو سمجھنے کے اعتبار سے، مثلاًایک ہزار سال پہلے کے ایک نابغۂ روزگار شخص جیسے شیخ صدوق، شیخ مفید اور حتیٰ شیخ طوسی کو پیشِ نظر رکھیں، اور پھر نو سو سال بعد کے شیخ مرتضیٰ انصاری کو نظر میں رکھیں، تو ہم دیکھیں گے کہ شیخ مرتضیٰ انصاری نو سو سال بعد شیخ طوسی، شیخ مفید اور شیخ صدوق کی نسبت بہتر طور پر کلامِ نبوی کا تجزیہ وتحلیل کرسکتے ہیں۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ شیخ مرتضیٰ، شیخ طوسی سے زیادہ ذہین ہیں؟ نہیں، ان کے زمانے کا علم شیخ طوسی کے زمانے سے زیادہ وسیع ہوچکا ہے، علم نے ترقی کی ہے، اس لئے وہ ہزار سال پہلے آنے والے لوگوں کی نسبت بہتر طور پر کلامِ نبویؐ کی گہرائی تک پہنچ سکتے ہیں۔آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ سو سال بعد، دو سو سال بعد ایسے لوگ پید اہوں گے جونبی اکرمؐ کے کلام کو شیخ انصاری سے کہیں زیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھیں گے۔
یہ کلماتِ نبویؐ کے بارے میں بات تھی۔