سیرتِ نبوی ؐ، ایک مطالعہ

زہد کی تعریف میں، نہج البلاغہ میں مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کاایک جملہ ہے، اس سے بہتر بات کہناممکن نہیں ہے۔ زہد کی تعریف ہمیں حضرت علی علیہ السلام سے سننی چاہئے۔ فرماتے ہیں:

اَلزُّہْدُ کُلّہُ بَیْنَ کَلِمَتَیْنِ مِنَ الْقُرْآنِ۔(۱)

زہد کوقرآن کے دو جملوں میں بیان کیا گیا ہے (یعنی زہد سے مرادتقدس کے اظہار کے یہ خشک مظاہرے نہیں ہیں، زہد کا تعلق انسان کی روح سے ہے) جہاں سورۂ حدید میں ارشاد ہوتا ہے:

لِّکَیْلااَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَ لااَا تَفْرَحُوْا بِمَآ ٰاٰتکُمْ۔ یہ کہ اگرایک ایسے مرحلے پر پہنچ جاؤ جہاں تمہیں حاصل دنیا تم سے چھین لی جائے، تو تم غمگین نہ ہو، دنیا کا غم تمہیں اپنی گرفت میں نہ لے لے۔ اور اگر تمہارے پاس کچھ بھی نہ ہواوراچانک تمہیں دنیامل جائے، توتمہارا حال یہ نہ ہو کہ تم خوشی سے پھولے نہ سماؤ۔ بالفاظِ دیگر اگر پوری دنیاتمہارے ہاتھ میں ہواور وہ تم سے لے لی جائے، تب بھی تم ایسے ہی رہو جیسے تمہارے پاس کچھ تھا ہی نہیں، اور اگر تمہیں پوری دنیا دے دی جائے، تب بھی تم میں کوئی تبدیلی نہ آئے ۔

حضرت علی علیہ السلام نے زہد کی وہ تعریف بیان کی ہے جسے مارکس جیسے لوگ انسان کے بارے میں تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ علی ؑ نے زہد کی جو تعریف بیان کی ہے، محال ہے کہ انسان ایسا زاہد بن سکے۔ یعنی انسان ایسی اعلیٰ شخصیت کا مالک ہو جائے کہ طبقات اور مفادات سے بالاتر ہوجائے۔ لیکن مکتبِ اسلام اس بنیاد پر ہے۔ مکتبِ اسلام یا آج کی اصطلاح میں اسلامی ہیومنزم، اسلامی اصالۃ الانسان، سچا اسلامی انسان اسی بنیاد پر ہے کہ انسان زاہد بن سکتا ہے، البتہ وہ زاہد نہیں جسے ہم زاہد کہتے ہیں، بلکہ ایسا زاہدجس کی علی ؑ نے تعریف کی ہے کہ: لِّکَیْلااَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَ لااَا تَفْرَحُوْا بِمَآ ٰاٰتکُمْ۔

پس نتیجہ یہ برآمدہوا کہ سیرت یعنی منطقِ عملی، منطقِ نظری سے مختلف ہے، اور ممکن ہے کہ انسان اجتماعی، اقتصادی اور مختلف طبقاتی حالات کے باوجود ایک مستقل منطق کا مالک ہو۔ یعنی یہ اسلام کا نظریہ ہے اور اسلام کے سچے تربیت شدہ افراد نے بھی یہ دکھایا ہے کہ انسان ایسا ہوسکتا ہے۔

روش شناسی (methodology)

ہم عرض کر چکے ہیں کہ منطقِ عملی میں بھی منطقِ نظری کی طرح مختلف اسالیب اور مختلف انداز پائے جاتے ہیں۔ یعنی حل کی جو راہیں لوگ تلاش کرتے ہیں وہ مختلف ہوتی ہیں۔ بطورِ مثال ہم نے کہاتھا کہ ایک انسان کی منطق، طاقت کی منطق ہے، دوسرا محبت، اخلاق اور مہربانی کی منطق کاحامل ہے۔تیسرے کی منطق دوراندیشی اور تدبیر ہے، چوتھے کی منطق سرعت، فوری فیصلہ اور وقت ضائع نہ کرنا ہے۔ ایک اور انسان ہے جس کی منطق دھوکا اور فریب ہے۔ایک کی منطق اپنے آپ کو مردہ ظاہر کرنااور تغافل ہے، }ہم ان کی {مثالیں بھی بیان کرچکے ہیں۔ اب گفتگو کے اختتام پر صرف اس قدر عرض کریں گے کہ منطقِ نظری میں کچھ لوگ منطقِ قیاسی کے تابع ہیں، کچھ لوگ تجربی اور حسّی منطق کے تابع ہوگئے اور کچھ لوگ اعداد و شمار(statistics) کی منطق کے۔

قیاسی، تجربیوں کا انکار کرتے تھے، تجربی حضرات قیاسیوں کی مخالفت کرتے تھے، اور صورتحال اسی طرح تھی۔ابھی حالیہ دور میں ایک بہت اچھا کام یہ ہوا ہے کہmethodo logy)یعنی روش شناسی کا علم وجود میں آیا ہے۔ یہ علم کہتا ہے کہ جو لوگ قیاسی اسلوب کے قائل ہیں اور دوسرے اسالیب کی نفی کرتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں۔ اور جو لوگ تجربی اسلوب کے قائل ہیں اور قیاسی اسلوب کا انکار کرتے ہیں، وہ بھی غلطی پر ہیں۔ اور جو لوگ ڈائلکٹک طریقے کے قائل ہیں اوراسٹیٹکس طریقے کے مخالف، وہ بھی غلطی پر ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ انسان مقام کو پہچانے، کہاں قیاسی اسلوب کا مقام ہے، کہاں تجربی اسلوب کامقام ہے، اور کہاں کسی اور طریقے کا۔

یہ مقدمہ ہم نے اس لئے عرض کیا ہے کہ منطقِ عملی میں بھی ہو بہو یہی بات ہے۔ منطقِ نظری میں بعض اسالیب مکمل طو رپر مسترد ہوچکے ہیں، کیونکہ وہ علمی اسلوب نہیں تھے، جیسے کہ انسان علمی مسائل میں دوسروں کی باتوں حتیٰ بزرگوں کی باتوں پر اعتماد کرنا چاہے اورمثلاً کہے کہ فلاں بات کیونکہ ارسطو نے کہی ہے اس لئے اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا۔ کسی بھی عالم کا کہا حجت نہیں ہے۔

۱۔نہج البلاغہ ۔کلماتِ قصار۴۳۹